کارونجھر پہاڑی سلسلے کی تقسیم نہیں ہوسکتی، عالمی گائیڈلائنز کے تحت اسے محفوظ بنایا جائے، سندھ ہائی کورٹ کا حکم
کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ حیدرآباد نے، سندھ کے تاریخی ورثے اور ننگر پارکر کی خوبصورت کارونجھرپہاڑی سلسلے کو عالمی گائیڈلائنز کے تحت محفوظ بنانے کا حکم دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ قانون کے تحت یہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جس کی کٹائی کے لیے اس کو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کارونجھر پہاڑیوں کی کٹائی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت مکمل کی اور 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا
ڈان نیوز کی خبر کے مطابق، عدالت نے فیصلے کی سنوائی کے دوران کہا کہ کارونجھر ایک محفوظ شدہ ورثہ ہے۔ محکمہ مائنز اور منرل کا کارونجھر پر کوئی اختیار نہیں ہے نہ ہی یہ کسی بھی نوعیت کی کان کنی یا کھدائی کے لیے مختص ہے
فیصلے میں کہا گیا کہ ’کارونجھر پہاڑ‘ بین الاقوامی گائیڈلائنز اور محکمہ آثار قدیمہ کے تحت تاریخی ورثوں کی دریافت کے لئے استمال ہونا چاہیے
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قوانین کے تحت پورا کارونجھر ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جسے کھدائی کے لیے حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ جنگلی حیات کی بحالی کا عمل اب شروع ہونا چاہیے اور وہاں بڑھنے اور پھلنے پھولنے والے درخت لگانے کا عملی کام بھی شروع ہونا چاہیے، شجرکاری کا ریکارڈ برقرار رکھا جائے، ہر پہاڑی کی نگرانی کی جانی چاہیے اور ہر تین ماہ بعد عدالت میں اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔
پہاڑ کی کھدائی کا عمل مکمل ہونے سے نہ صرف اس کی خوبصورتی متاثر ہوگی بلکہ اسکی جیوگرافی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس کی اہمیت پورے پہاڑی سلسلے کو محفوظ بنانے میں ہے
مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات, پرندوں اور جانوروں سمیت تمام جنگلی حیات کے لیے تحفظ کا کام جاری رکھ سکتا ہے
سندھ ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر تھرپارکر اور متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا کہ یہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کارونجھر پہاڑ ی سلسلے میں کسی بھی نوعیت کی کوئی بھی تجارتی سرگرمی یا اس کی کٹائی کا عمل نہ ہو ا، تاہم فرائض کی ادائیگی میں ناکامی کو غفلت اور عدالتی حکم سے اجتناب سمجھا جائے گا
عدالت نے کہا کہ قانون کے تحت اس پہاڑی سلسلہ کو برقرار رکھنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے
فیصلے میں کہا گیا کہ کارونجھر میں کان کنی کی اجازت، یا کان کنی کی کوئی نجی سرگرمی پائی گئی تو متعلقہ محکمہ کے سیکریٹری اس کے ذمہ دار ہوں گے
عدالتی حکم کے مطابق، ماہرین کی مدد سے ہر ’جین مندر‘ کو اس کی اصل شکل میں لانے اور ہر ایک پتھر کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے



عدالت نے 2021 میں شہری منور علی ساگر اور 2023 میں شہری شنکر لال کی جانب سے دائر کی گئی دو درخواستوں پر 30 اگست اور 5 ستمبر کو سماعت کی تھی
شہری شنکر لال نے متعلقہ محکمے کے خلاف درخواست دائر کی تھی جب محکمہ کی جانب سے لیز جاری کرتے ہوئے کمپنیوں کو کارونجھر سے قیمتی پتھر کی کٹائی کی اجازت دی گئی تھی
عدالت نے ابتدائی طور پر پہاڑ کی کٹائی پر حکم امتناع جاری کیا تھا اور پھر طویل سماعت کی تھی جہاں سجاد احمد چانڈیو اور عشرت علی لوہار کو عدالت کے معاون مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے عدالت میں معاونت کے لیے اپنی رپورٹیں پیش بھی کی تھیں
واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے فیصلے پر سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور عام شہریوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور سندھ بھر میں احتجاج شروع ہوگئے تھے
اس وقت ایک کمپنی کی طرف سے ظہیر الحسن منہاس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے کیونکہ ان کے مؤکل کی لیز منسوخ کردی گئی تھی