جاپان میں بڑھتے ہوئے بزرگ شہریوں کی تعداد، ہر 10 میں ایک کی عمر 80 سال سے
زیادہ جاپان میں 65 سال سے زائد عمرکی آبادی 29.0 سے بڑھ کر29.1 فیصد ہوگئی ہے۔
ویب نیوز رپورٹ: روبینہ یاسمین
جاپانی حکومت کا کہناہے کہ ملک میں آبادیاتی بحران پیدا ہوگیا ہے جاپان اپنے سماجی افعال کو بر قرار رکھنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہے ۔ جاپانی وزارت داخلہ و مواصلات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق

جاپان میں 65 سال سے زائد بزرگوں کا تناسب ریکارڈ
بلندی پر ہے جو کہ آبادی کا 29.1 فیصد ہے۔ اعدادو شمار
کے مطابق دنیا میں جاپان کی بزرگ آبادی کاحصہ
سب سے زیادہ ہوگیا ہے۔
جاپانی وزارت نے یہ اعدادوشمار ملک میں یومِ عمر کی عام تعطیل کےدن جاری کیے ہیں اعداو شمار میں شرح پیدائش میں کمی اور افرادی قوت میں کمی کا بھی ذکر ہے۔
علاوہ ازیں اس سے پیدا ہونے والے مسائل جیسا کہ پینشن اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ فنڈنگ کی ضرورت پڑ تی ہے، کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
جاپان کی آبادی 1980 کی دہائی کے معاشی عروج کے بعد سے مسلسل گر تی جارہی ہے شرح پیدائش 1.3 فیصد ہے جو کہ ایک مستحکم آبادی کو (جہاں امیگریشن نہیں ہوتی) برقرار رکھنے کے لیے درکار 2.1 فیصد سے بہت کم ہے۔

دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے رہنماؤں کے لیے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ جاپان میں ایک دہائی سے زائد عرصےمیں اموات کا شرح پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ یہ ملک دنیا میں سب سے زیادہ عمریں پانے والوں میں سے ایک ہے ۔ جو بوڑھوں کی بڑھتی ہوئی آبادی میں اپنا حصہ غیر محسوس طریقے سے ڈالتا ہے۔
جاپانی حکومت نے گزشتہ دہائی میں مزید بزرگوں اور گھر میں رہنے والی ماؤں کو افرادی قوت میں دوبارہ داخل ہونے کی ترغیب دی ہے ۔ تا کہ مزدوروں کی بڑھتی ہوئی قلت سے نمٹنے کے لیے اور رکتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے۔
حکومت جاپان کے اس پیغام و اقدام نے اس حد تک کام تو کیا ہے کہ اب جاپان میں ریکارڈ بزرگ کارکن کی تعداد 9.12 ملین ہے۔ یہ تعداد پچھلے 19 سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ یہ تعداد پچھلے 19 سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
نایاب الیکٹرک بلیو ٹارنٹولا کی دریافت
نئےخزانے اور پوشیدہ راز ظاہر ہو گئے
ہر چند کہ جاپان میں بڑی معیشتوں کے مقابلے میں بزرگوں کی شرح ملازمت سب سے زیادہ ہے لیکن جاپان کے بزرگ کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرنا آبادیاتی بحران کے سماجی اور معاشی اثرات و مسائل کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
وزیر اعظم فیومیو کشےدہ نےجنوری میں خبر دار کیا تھا کہ جاپان اپنے سماجی افعال کو بر قرار رکھنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہے ۔
انہوں نے مزید کہا، جاپانی حکومت کی سب سے اہم پالیسی ماں باپ کی بچوں کی پرورش کے حوالے سے تھی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب اور زیادہ انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
بڑھتے ہوئے اخراجات اور سماجی عدم اطمینان کے پیش نظر آ س پاس کے ممالک چین، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تائیوان بھی اسی طرح کے بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہ اپنے نوجوانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔