September 20, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
فارسی تیندوے کا نا معلوم شکاری

فارسی تیندوے کا نا معلوم شکاری

بلوچستان وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے مردہ تیندوے کی تصاویر

وائرل ہونے پر ’ایف آئی اے‘ سے میٹا سورس کے

حصول کے لئے رابطہ کرلیا۔

رپورٹ: روبینہ یاسمین

کراچی: فارسی تیندوے کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی مقامی زبان میں’پولنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہے۔ Panthera Pardus Tulliana جبکہ اس کا سائنسی نام

اپریل23سال2024کو صوبہ بلوچستان میں واقع اگور کے شمال میں ہنگول نیشنل پارک کے قریب نانی مندر

کے علاقے میں طویل عرصے بعد فارسی تیندوے کی سنگلاخ چٹانوں پرنقل وحرکت کی فوٹیج منظرعام پرآئی

اور دیکھتے ہی دیکھتے ویڈیو وائرل ہوگئی۔ پرشین تیندوے کی فوٹیج پوجاپاٹ کی غرض سے نانی مندر آنے

والے ایک ہندو یاتری نے اپنے موبائل سے عکس بند کی تھی۔

محض ایک دن بعد ہی نعیمہ زہری کی جانب سے ایکس پر ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس میں لکھا گیا

فارسی تیندوے کا نا معلوم شکاری

ضلع لسبیلہ کی پہاڑی’پیر بمبل شریف‘ کے علاقے میں

مارخور کے شکار کے دوران فارسی تیندؤوں کا شکار بھی کیا

گیا‘‘۔ بلوچستان میں فارسی تیندوے کے شکار کی پوسٹ

کی خبر شوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کی شکل اختیار کر گئی۔

فارسی تیندوؤں کو کس نےمارا؟ Panthera Pardus Tulliana

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل مشیر معظم خان کے مطابق، پاکستان میں پرشین تیندوے کی تعداد 200 کے

لگ بھگ ہے جبکہ دنیا بھرمیں اس نسل کے تیندوے کی تعداد بارہ سو 1200رہ گئی ہے۔ جنگلی حیات کے

ماہرین و واچرکا کہنا ہے کہ تیندوؤں کی ایک ملک سے دوسرے ملک اورعلاقوں میں نکل مکانی خوراک کی

تلاش کے باعث ہوتی ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کیرتھر سے ملک ایران تک انکی نقل و حرکت

ریکارڈ کی گئی ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلہ 3,087 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کےاحاطے میں کیرتھر نیشنل پارک کراچی، جام شورو، دادو اور بلوچستان کے حب کے پہاڑی علاقے شامل

ہیں۔ کیرتھر نیشنل پارک کو 1974 میں محفوظ مقام یا ’پروٹیکٹو ایریا‘ قرار دیا جاچکا ہے۔

کیرتھر کے بیس لائن سروے کے مطابق یہاں جنگلی بکروں، ہرن،پرندوں اور رینگنے والے

حشرات کی 200 اقسام پائی جاتی ہیں۔

چیف کنزرویٹروائلڈ لائف بلوچستان شریف الدین بلوچ نے نمائندہ خصوصی روبینہ یاسمین سے بات چیت کے

دوران تصدیق کی کہ مذکورہ تصویر میں نظر آنے والی پہاڑی بلوچستان کی لسبیلہ, آواران,گوادر, خضدار

اور ہنگول نیشنل پارک سے مشابہہ ہے۔ شکار ہونے والے تیندوے پرشین لیپرڈز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ

جس وقت مجھے فارسی تیندوے کی خبر مع تصاویر ملی اس وقت میں ڈسٹرکٹ لسبیلہ کی پہاڑی پیر

بمبل شریف میں ہی تھا۔ یہ میرے لئے ایک غیر معمولی خبر تھی۔ میں نے ڈسٹرکٹ آفیسرز وائلڈ لائف

بلوچستان سے تفصیلات مانگیں۔ آفیسرز آصل بلوچ اور عبدالعزیز اہنگاریہ نے تحقیقات کے بعد رپورٹ ہیش

کی جس میں اس طرح کے شکار کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا۔ تاہم وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ بلوچستان نے

ایف آئی اے کو تصاویر اور دستاویزات بھیج دیں اور میٹا سورس کی معلومات حاصل کرنے کیا (FIA)

درخواست بھی کی۔ بعد ازاں ایف آئی آر کاٹنے کے بعدوائلڈ لائف افئیر سیکشن 92 پارٹ2, 16, 10کے مطابق

دستاویزات اور تصاویر چالان کاٹ کر کورٹ میں جمع کردی گئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نا معلوم شکاری

کے خلاف لیگل ایکشن لیا جا چکا ہے بس اب اس کا گرفت میں آنا باقی ہے۔

تیندوے کو کب اور کیوں مارا جاتا ہے؟

رقبے کے لحاط سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اپنے طویل ترین اور سنگلاخ پہاڑی سلسلوں کی

وجہ سے دنیا بھر میں منفرد تصور کیا جاتا ہے۔ 80فیصد پہاڑوں پر مشتمل صوبہ بلوچستان کے لوگ آج بھی

خانہ بدوش ہیں۔ جھونپڑیوں میں مقیم ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا پیشہ غلہ بانی اور جنگلوں کی پرورش پر

منحصر ہے۔

کیرتھر کے بیس لائن سروے کے مطابق یہاں ہرن، جنگلی بکروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی 200

اقسام پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں کیرتھر کی کرچات پہاڑیوں میں اور قلات و مکران (بلوچستان) کے پہاڑی

سلسلوں میں فارسی تیندوا پایا جاتاہے۔ باوجود اس کے کہ اس علاقے میں انسانی آبادی انتہائی محدود ہے

اور چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جبکہ روڈ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں ہیں، ذرائع کے مطابق سال 2023 میں 3

تیندوؤں کا شکار انہی پہاڑی سلسلوں میں کیا گیا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کے بعد ان کی کھال اور

سَروں کو شکاری افراد اپنے گھر کی دیواروں پر بطور یادگار لٹکا دیتے ہیں جبکہ بعض شکاری لوگ اسے اپنی

بیٹھک کی زینت بھی بناتے ہیں۔

چیف کنزرویٹروائلڈ لائف بلوچستان شریف الدین بلوچ نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے ہوسٹائل ایریا میں

وسائل اور اسٹاف کی کمی کے باعث بلوچستان وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ کے لئے

بھرپور انداز میں کام نہیں کر پارہا ہے۔

فارسی تیندوے کا نا معلوم شکاری

چیف کنزرویٹروائلڈ لائف بلوچستان شریف الدین بلوچ

کا کہنا ہے کہ بلّی کےخاندان سے تعلق رکھنے والا

فارسی تیندوا بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں پایا

جاتا ہے۔ یہ عموماََ اپنے جوڑے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس

کی نقل و حرکت کا منتخب کردہ محدود علاقہ

سو اسکوائرکلومیٹرتک ہے۔ فارسی تیندوے کے Territory

پیروں کے نشانات قلات کے پہاڑوں سے لے کر جھل مگسی

مکران، ڈسٹرکت کیچ اور کوئٹہ کے پہاڑوں تک میں ملے ہیں

تاہم انکی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی بات یا

اعدادوشمار نہیں بتائے جاسکتے۔

(IUCN) لیپرڈ کی یہ نسل (جسے فارسی تیندوا کہتے ہیں) انٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر

کی ریڈ لسٹ میں شامل ہے۔ شریف الدین بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ شکاریوں

کے خلاف کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔

فارسی تیندوے کا نا معلوم شکاری

تاہم24اپریل کو شکار ہونے والے فارسی تیندوے کے شکاری کی کھوج جاری ہے اور جب تک ایف آئی اے کی

رپورٹ نہیں آجاتی تب تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ تصاویر اصلی ہیں بھی کہ نہیں اور

اگر اصلی ہیں بھی تو اس کا تعلق ماضی میں لی گئی کسی تصویر سے بھی ہوسکتا ہے۔

تیندوے کے شکار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تیندوے کو صرف اسی صورت میں مارا جاتا ہے جب وہ

انسانی آبادی میں داخل ہو کر نقصان کا باعث بنے۔ ماضی میں ایسے کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جب تیندوے

نے گاؤں والوں کی بکریوں کو اپنی خوراک کے لئے شکار کیا تو گاؤں والوں نے اسے مار ڈالا۔

واضح رہے کہ تیندوا پاکستان کا مقامی اور محفوظ قرار دیا گیا جنگلی جانور ہے۔ فارسی تیندوا بلوچستان کے علاوہ

خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیرمیں بھی پایاجاتا ہے۔ تاہم نا معلوم افراد کی جانب سے تیندوے کا غیر قانونی

شکار نہ صرف ان کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہا ہے بلکہ یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں یہ

معدومیت سے دوچارنہ ہوجائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×