November 5, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
نواز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلی کا حسین دور

نواز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلی کا حسین دور

یہ 80 کی دہائی کے آخری برسوں کا واقع ہے، ان دنوں

محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنی تھیں جبکہ

ہماری اسٹبلشمنٹ کے نزدیک وہ قابل قبول نہ تھیں۔

تحریر: آغا خالد (سینئر صحافی)

پہلی قسط

agha.khalid@gmail.com

سکھر نیشنل پریس کلب کے لان میں چودھری شجاعت کے اعزاز میں عصرانہ کا اہتمام تھا کلب کے صدر اور روزنامہ ڈان کے بیورو چیف شمیم شمسی اور جنرل سیکریٹری روزنامہ جنگ کے علی اختر جعفری میزبان تھے لان میں ٹینٹ کناتوں کے ساتھ سرخ قالین بچھا تھا پنجاب کے روائتی جٹی اسٹائل میں دراز قد کے چودھری شجاعت مہمانوں میں گھرے تھے۔

یہ 80 کی دہائی کے آخری برسوں کا واقع ہے، ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنی تھیں جبکہ ہماری اسٹبلشمنٹ کے نزدیک وہ قابل قبول نہ تھیں۔ اپنے مد مقابل انہوں نے اپنے تمام وسائل صرف کرکے نواز شریف کو وزیراعلی پنجاب بنوادیا تھا جو پیپلزپارٹی کے مدمقابل متحدہ حزب اختلاف کے مشترکہ نمائندے تھے اوراس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کاتارا بھی، تو ہر طرف ان کے ہی چرچے تھے

جبکہ دوسری طرف عوامی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرکے انتخاب جیتنے کے نتیجہ میں وزارت عظمی کے منصب پر فائز محترمہ بے نظیران کے سامنے بے بس نظرآتی تھیں۔

نواز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلی کا حسین دور

نوجوانی میں مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ

کشمیری حسن، سرخ رنگت، دمکتے چہرے

والے نواز شریف لاڈلے وزیر اعلی پنجاب تو

تھے ہی، صوبے کے سارے وسائل ،اختیار و

اقتداران کی دسترس میں دے دئیے گئے تھے۔

ان دنوں وہ بھی بگڑے رئیس زادے کھلنڈرے نوجوان اورعاشق مزاج بھی رج کے تھے اس پر مستزاد یہ کہ ملک کی ایک معروف مغنیہ ان کے عشق میں گرفتارہوگئیں اور دوسری طرف سے جوابا پرجوش جذبہ رفاقت نے عشق کی اس بیل کو ایسا منڈھے چڑھایا کہ بے چاری گلوکارہ کا گھر ہی اجڑ گیا اورگلوکارہ نے معمولی ناراضگی پرمیرے چچرے بھائی ظہیر کی نوکری ختم کروادی جسے بحال کروانے کا سنہری موقع جان کر مجمع کو چیرتے ہوے میں نے چودھری شجاعت تک رسائی حاصل کی اوران سے کہاکہ مجھے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آپ سے ملناہے۔

چودھری شجاعت اس وقت نواز شریف سے بڑے لیڈراورمسلم لیگ کے کرتا دھرتا ہونے کے ساتھ طاقت ورملکی اسٹبلشمنٹ میں ان کا اثرورسوخ بھی مسلمہ اور نواز شریف سے زیادہ بھی تھا۔ وہ سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کی خاطر صوبے کے ہر بڑے شہر کا دورہ کرہے تھے اور اسی سلسلہ میں وہ سکھر بھی تشریف لائے تو انہیں میٹ دی پریس کی دعوت دی گئی جس میں وہ آج نیشنل پریس کلب کے مہمان خاص تھے۔

چودھری صاحب کی پریس کلب آمد پر اختر جعفری صاحب نے دیگر صحافی ممبران کے ساتھ میرا تعارف بھی کروایا تھا اورمیری ان کے سامنے خاصی تعریف بھی کی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے فورن اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کراس کی پشت پر تاریخ کے ساتھ دستخط کرکے مجھے دیدیا اور کہاکہ میں زیادہ تراسلام آباد میں ہوتا ہوں آپ فون کرکے آئیے گا۔

بعد ازاں اس کی اطلاع میں نے بذریعہ فون ظہیر بھائی کو دی تو وہ اچھل پڑے اور بولے، یہ زبردست کام ہوگیا چلیں اگلے ہفتے چودھری صاحب سے ملنے چلتے ہیں دوسرے ہفتے میں سکھر سے بہاولپور پہنچا اور وہاں سے لاہور جانے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کوسٹر میں سوار ہوے تو ہمارے پیچھے ہی ایک بہت ہی وجیہ اور پرکشش خاتون بھی داخل ہوئیں جو سرائکی حسن کا شاندار شاہکار تھیں یوں بھی اس سرائکی پٹی میں گندمی یا نکھرتے مشکی رنگ میں یوسف کی زلیخا کاعکس دیکھنا ہوتو کبھی پنجاب کے اس خطے کا دورہ کریں قدرت کے کمالات دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔

غربت کے ڈیروں میں ہیروں کی چکا چوند آپ کو اپنی طرف کھینچے گی یہی وجہ ہے کہ ہزاروں میل دور سےعربی بدو آکر اپنی دولت کے بل بوتے پراس حسن نمکین کو مسلتے اور ان کی غربت بھری نسوانیت کو دل دوز چیخوں کے شور میں بھنبوڑتے اور ہوس پوری کرکے انسانیت کے منہ پر تمانچے رسید کرتے ہیں، ان حسین خاتون کے ساتھ ایک بہت ہی خراب صورت گٹھے جسم کرخت چہرے والےادھیڑعمر کے باباجی تھے۔

ان کے چہرے پر نکلے موٹے اورپیپ بھرے دانوں نے ان کی شخصیت کو تکلیف دہ حد تک بدصورتی میں بدل دیاتھا۔ مشرقی روایتی مردوں کی بری عادات کے عین مطابق میں بھی اس پرکشش اور باوقار خاتون اوراس کے ساتھ اس مرد کے رشتے کا اندازہ لگا ہی رہاتھا کہ ظہیر بھائی خاتون کی طرف اشارہ کرکے سرگوشی میں بولے اسے پہچان تے ہیں، میں نے اعراض کیا تو بولے! بھائی یہ پاکستان کی معروف شاعرہ نوشی گیلانی ہیں، ان کاتعلق بھی ہمارے بہاولپور سے ہے، پھر وہ موصوف کی طرف اشارہ کرکے بولے یہ ان کے شوہر نامدار ہیں جو خود بھی شاعر ہیں نوشی صاحبہ ان سے شاعری پر اصلاح لینے جاتی تھیں اور پھر، ظہیر بھائی ان کے شوہرکی طرف اشارہ کرکے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے، اپنی ایسی اصلاح کروا بیٹھیں، ان کے آخری جملے پر وہ اور ہم بمشکل ہنسی پر قابو رکھ سکے۔

سارے راستے ان میاں بیوی نے آپس میں کوئی بات نہ کی اورلاہورآگیا جہاں سے ہماری منزلیں جدا ہوگئیں اور ہم پنڈی والی کوسٹر میں سوار ہوگئے۔ راستے میں، میں نے ان سے نواز شریف کی اتنی شدید ناراضگی کا سبب پوچھا اور کہا کہ بھائی آپ ایک سرکاری ادارہ میں 17 گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور نواز شریف صوبے کا طاقت ور وزیر اعلی، یہ بات مجھے ہضم نہیں ہورہی کہ آخر وہ آپ جیسے چھوٹے درجہ کے ملازم کی نوکری کے درپے کیوں ہوگیا تھا؟ جس پر ظہیر بھائی نے اپنی کتھا یوں بیان کرنا شروع کی، جو ہم ظہیر بھائی سابق اسسٹنٹ ڈائرکٹرچولستان ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور انچارج چولستان ریسٹ ہائوس کی زبانی من و عن سن لیتے ہیں جس کے ہیرو اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب نواز شریف اور ہیروئین ایک معروف نازنیں مغنیہ تھیں اور متاثرہ فریق ظہیر تھے ان کی خاطر مجھے چودھری شجاعت کی مدد کی ضرورت پڑی، یہ کوئی نیا چونکا دینے والا جملہ نہیں تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ طاقت و اقتدار کے ساتھ “پریم نگری کاسادھو” جہیز میں ضرور ملتاہے سو نواز شریف کیوں کر پیچھے رہتے وہ تھے بھی ان دنوں پنجاب دا “سوہنا کشمیری منڈا” مجھے اچھی طرح یاد ہے 90 کی دہائی میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو کراچی کے بوہری بازار صدر میں خوفناک بم دھماکہ ہواتھا جس میں بڑی تعداد میں جانی ومالی نقصان ہواتھا اور بوہری بازار کی ایک پوری گلی آگ لگنے سے خاک ستر ہوگئی تھی۔

بعد میں ہمارے تفتیشی اداروں نے اس دھماکہ کے جن ملزمان کو گرفتار کیاتھا انہوں نے دوران تفتیش انکشاف کیاتھا کہ وہ بھارتی “راء” کے ایجنٹ ہیں اور اس کی فنڈنگ پر انہوں نے یہ بم دھماکے کیے تھے اس نقصان کاجائزہ لینے اور متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لیے نواز شریف کراچی آئے اور متاثرہ بازار کا دورہ کیا اس موقع پر کراچی کی انتظامیہ نے اتنے سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے کہ صحافیوں کو بھی اس گلی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ہم دوتین رپورٹرز گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوکر وزیر اعظم کی واپسی کا انتظار کرہے تھے کہ دو تین برگر خواتین بھی آکر ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔

ان کی آپسی گفتگو سے اندازہ ہواکہ وہ شاپنگ کرنے آئی تھیں نواز شریف کا سن کر انہیں دیکھنے آگئیں۔ نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمتی اور بدقسمتی کے یکساں مسافر رہے ہیں کہ وہ 80 کی دہائی کے آخری سالوں سے کراچی سمیت سندھ بھر میں بلکہ پورے ملک میں اسی طرح مقبول اور ہردلعزیز تھے جیسے آج کل عمران خان ہیں جس نوجواں نسل کے خان ہیرو ہیں ان کے والدین کے ہیرو نواز شریف ہوا کرتے تھے مگر انہوں نے پنجاب کو اپنی سیاست کامحور بناکر کراچی اور سندھ کو خاص طور پر نظر انداز کرکے جو جگہ چھوڑی، اس خلا کو بالآخر خان نے پر کیا (اب پچھتائے کیا ہووت ہے، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت)۔۔۔

نواز شریف زبردست سیکوریٹی حصار میں گلی سے نکلے تو ہم اوران خواتین کو ہجوم نے بہت پیچھے دھکیل دیا مگر گاڑی میں بیٹھتے نواز شریف کی جھلک دیکھنے کے لئے وہ خواتین بے چینی سے ایڑیاں اٹھا اٹھاکر تبصرے کررہی تھیں اور ایک نے تو گالوں پر سرخی لاتے ہوے اپنی ساتھیوں سے کہا، نیں کنا سونڑاں لگدا پیا اے، دوسری بولی ،آہو رنگ وی ٹماٹر ورگا لال اے، تو بیچاری مغنیہ کا کیا قصور وہ اپنی پہلی محبت اور انتہائی وجیہ شخصیت کے حامل شوہر کو چھوڑ کر نواز کی چاہت میں دیوانی ہوگئیں اور دیوانی بھی ایسی کہ اپنا ہنستا بستا گھر ہی اجاڑ لیا۔

سیانے سہی کہتے ہیں عورت اور اونٹ کی کونسی کل سیدھی کوئی نجومی نہیں بتاسکتا، ظہیر بھائی بتارہے تھے، نوجوانی میں نواز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلی کے دور میں بہاول پور کے چولستان کو ترقی دینے کے لئے چولستان ڈیولپمنٹ اتھاریٹی قائم کی اوراس کا ذیلی دفتر چولستان کے اندر بنایا جہاں ایک جدید لوازمات سے سجا مہمان خانہ (ریسٹ ہائوس) بھی تعمیر کیاگیا تھا۔

اس ریسٹ ہائوس اور ذیلی دفتر میں 18/19 گریڈ کے کئی افسر تعینات تھے مگر مہمان خانہ کا نگراں ظہیرآرائیں کو مقرر کیاگیا وہ پہلے سے ہی چولستان اتھاریٹی میں افسر تھے مقصد تو اتھاریٹی بنانے کا چولستان کو لہلہاتے نخلستان میں بدلنا تھا مگر کھلنڈرے نواز شریف نے اصل مشن کے ساتھ چڑیوں کو دانہ ڈالنے کے لیے بھی چولستان کے مہمان خانہ کو چن لیا اور یہ کوئی انوکھی مثال نہیں سرکاری مہمان خانے اکثر افسران کی عیاشی کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔

نواز شریف ہر مہینے، “شب نشاط” منانے پہنچ جاتے اور خوب کنایۃ وصل مناتے بقول ظہیر بھائی کے ہر مرتبہ محبوب بدلتے رہتے مگر زیادہ تر قرعہ فال اس حسین و جمیل گلوکارہ کا نکلتا اور جب وہ ساتھ ہوتیں تو نواز وزیر اعلی کم خادم ادنی زیادہ نظر آتے مگر اقتدار کی مصروفیات کے سبب اکثر ایسا بھی ہوتا کہ صاحب رات گئے یا علی الصبح پہنچتے مگر منکوحہ غیر سورج ڈھلتے ہی پہنچ جاتیں اور پھر انتظار کی گھڑیاں اللہ اللہ۔۔۔

ادھر رات گئے مدہوشی میں وہ پری پیکر اپنی خواب گاہ سے نکل کرلان میں پڑی بید کی کرسیوں پر ٹانگیں پھیلاکر بیٹھ جاتیں اورنیلے آسمان پر چمکتے ستاروں سے لطف اندوز ہوتی رہتیں، گھنٹوں اسی حالت میں جیتے جاگتے محو خواب ہوتیں مہمان خانہ کے چھوٹے ملازمیں جو ڈیوٹی پر ہوتے ایسے میں الرٹ رہتے اور وقفہ وقفہ سے آکر ظہیر بھائی کے کمرہ میں رپورٹ دیتے رہتے اور ظہیر بھائی کا کہنا تھا کہ میں وزیر اعلی کی آمد یا ان کی خواب گاہ کی بتی بجھنے تک سو نہیں سکتاتھا یہ میری ڈیوٹی اور پروٹو کول کی لازمی ضرورت تھی کیونکہ وزیراعلی اکثر بغیر پروٹوکول کے آتے تھے اور ان کا ذاتی عملہ بھی محدود ہی ہوتا تھا اس لیے ان کی حفاظت اور ضروریات کا خیال رکھنا بھی میری ذمہ داری تھی جس پر میں اکثرنالاں ہوکرافسران سے اپنے تبادلہ کی درخواست کرتا یوں بھی یہ تعیناتی مجھے پسند نہیں تھی جبکہ ہمارے محکمہ کے کئی دیگر افسران اس منصب کے لیے بڑی موٹی سفارشیں کرواتے اور میں دل ہی دل میں ان کی دعاء کی قبولیت کا خواہش مند رہتا مگر ڈی جی اور دیگر بڑے افسران اس حساس جگہ کی اہمیت اور ذمہ داری کو سمجھتے ہوے مجھے بدلنے کو تیار نہ تھے یوں میری فرض شناسی ہی میری سزا بن گئی تھی کبھی کبھی اس ڈیوٹی سے مجھے بڑی گھن آتی اور میں بیزار ہوکر افسران سے تبادلہ کی التجا کرتا مگر وہ ٹال دیتے خاص طور پر ڈی جی کہتے میں تم سے بہت خوش ہوں پھر وہ بڑی شفقت سے کہتے یوں بھی ظہیر یہ ایک حساس جگہ ہے یہاں تم جیسے ذمہ دار افسر کی تعیناتی ضروری ہے۔

ایک روز شام گئے اطلاع ملی کہ وزیر اعلی آج یہاں قیام کریں گے مگر ان کے مہمان پہلے پہنچ جائیں گے اطلاع کا مطلب کھانا تیارکرنا ہوتا تھا۔ شب 8 بجے کے قریب مہمان پہنچ گئے وہ ملک کی مشہور مغنیہ تھیں اور آج پھر وہ مہمان خاص تھیں جنہیں ہم اکثر دیکھتے رہتے تھے حتی کہ ایک رات میں کئی باران سے سامنا بھی ہوتا تھا مگر آج تو ان کی سج دھج ہی نرالی تھی۔

وہ وزیراعلی کے پروٹو کول کی گاڑی میں تھیں شوفر نے دروازہ کھولا تو وہ باہر نکلیں قیامت کامنظر تھا ہمارے عملہ کا ہر رکن ششدر کھڑا تھا چھوٹا ہو یا بڑا سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں قدرت کی وہ بلاشبہ شاندار تخلیق تھیں ملگجی رنگ کی کی ساڑھی پر نیلے پھولوں میں سرخ اور پیلے رنگ کے چھینٹے مارے گئے تھے سراہی دار گوری جمکتی گردن میں قیمتی نیلے رنگ کا نیکلس اور کانوں میں اسی رنگ کے بندے بالوں کاسلیقہ سے گندھا جوڑا وہ حسن و جمال کا عظیم شاہکارتھیں مجھے نواز شریف کی قسمت پر جو خود بھی مردانہ وجاہت کا پیکر تھے بہت رشک آیا اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی کمزویوں سے قطع نظر وہ بہت باوقار خاتون تھیں سارے اسٹاف کی یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ جب کسی بھی کام کے سلسلہ میں انہیں مخاب کرتیں ہیں تو کبھی ان کا لہجہ حکمیہ نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ وہ ملازمین سے نظریں بھی چار نہیں کرتیں اوران کے دھیمے لہجہ سے ہمیشہ شفقت ٹپکتی ہے جس سے عملہ بھی ان کا گرویدہ تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اپنے کمرہ میں چلی گئیں جہاں پہلے سے ان کی ضروریات کی اشیاء چھوٹے فرج میں یا میز پر سجادی گئی تھیں پھر بھی ایک شخص کی ڈیوٹی ان کے کمرہ سے مستقل لگادی گئی اور میں اپنے کمرہ میں چلا گیا۔

انتظار کی گھڑیاں بڑی کھٹن ہوتی ہیں اور شب خلوت میں طوالت تو زہر قاتل ہے ہی۔ ہماری معزز مہمان بے چینی سے کبھی لان میں ٹہلنے لگتیں اور کبھی آرام دہ کرسی پر جھولنے لگتیں اور کبھی کمرے میں چلی جاتیں اور ہر تھوڑی دیر بعد وہ خادم سے کہتیں صاحب کو فون کرو وہ کہاں پہنچے ہیں مگر وصل کی رات، شب زفاف میں طول پکڑ رہی تھی اس وقت تک موبائل فون ایجاد نہیں ہوے تھے تاہم پی ٹی سی کی زمینی پانچ لائنیں ہمیں ملی ہوئی تھیں پھر وزیراعلی کی ہاٹ لائن کا وائرلیس فون بھی میسر تھا مگر ہم وہ استعمال نہیں کرسکتے تھے اس مہمان خانہ کا صرف یہی استعمال نہ تھا بلکہ صحرا کی راتوں کے نواز شریف دیوانے تھے وہ اکثراہم اجلاسوں کا یہاں انعقاد کرتے اوران کے قر یبی دوست یا کوئی خاص غیر ملکی مہمان بھی آتا تو اسے صحرا میں لے آتے۔

یہاں کی شکار گاہ بھی بڑی مشہور تھی اس لیے وزیر اعلی کے خاص مہمان اس کا بھی فائدہ اٹھاتے خاص طور پر صحرائی ہرن کا گوشت بہت لذیذ ہوتاہے اس لیے اس کا شکار کیا جاتا اور پھر مہمان خانہ کے لان میں کوئلوں کی انگیٹھیوں پر بھنا جاتا یوں رات بھر مہمان نوازی جاری رہتی یہاں کی خنکی بھری سرد راتوں میں مہمانوں کو آسمان پرجگ مگ کرتے ستاروں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کیے جاتے اور صبح صادق کی اسیر کردینے والی ابھرتی نکھرتی روشنی دکھاتے جو مہمانوں کو اپنے قدرتی سحر میں جکڑ لیتی اس طرح وزیر اعلی کی اس دل چسپی کے سبب بہاولپور کا ایئر پورٹ بھی جدت پاگیا ورنہ قبل ازیں وہ صرف فوجی ضروریات ہی تک محدود تھا وہ جب بھی آتے یا ان کے مہمان آتے ان کا خصوصی جہازسروس دیتا انہیں اس وقت کوئی ڈر بھی اس لیے نہ تھا کہ وہ احتسابیوں کے ہی تو لاڈلے تھے چہ جائکہ انہوں نے ترقیاتی اسکیموں کاجال بچھاکر پنجاب کو مثالی صوبہ بنادیا تھا وہ پنجاب کو جیتنے اور پی پی کے اثر سے نکالنے کی خاطر تیزی سے جدید سہولتوں سے آراستہ کرہے تھے مگر دوسری طرف وہ لاڈلے ہونے کا بھرپور فائدہ بھی اٹھارہے تھے، رات کے 2 بج رہے تھے جب مادام کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے کہاکہ مجھے واپس جاناہے ڈرائیور کو بلائو ایک خادم نے مجھے اطلاع دی تو میں پریشاں ہوگیا۔

: یہ بھی پڑھیں

اسمٰعیل ہنیہ کی قربانی اور راستہ

اب ہم دوہری آزمائش میں تھے کہ ہماری یہ اوقات کہاں، وزیر اعلی کو فون کریں جبکہ دوسری طرف مادام کی ناراضگی بھی قیامت ڈھا سکتی تھی مینے ڈرتے ڈرتے شب 2 بجے ڈی جی کو فون ملایا تو انہوں نے پہلے تو اس وقت فون کرنے پر ناگواری کا اظہار کیا پھر ماجرا سن کر بولے اچھا میں چیف صاحب (وزیراعلی) سے بات کرتا ہوں تھوڑی دیر بعد ان کی کال آئی جو آپریٹر نے براہ راست مادام سے ملوادی، دوطرفہ ہونے والی گفتگو کاتو پتہ نہیں البتہ مادام اس کے بعد صحن میں آرام دہ کرسیوں پر نیم دراز ہوگئیں اورشاید ستارے گنتے ہوئے نیند کی آغوش میں پہنچ گئیں کیونکہ پھران کی طرف سے کوئی طلبی نہیں ہوئی۔

شب ڈھائی یا تین بجے کے قریب ہنگامی کال موصول ہوئی کہ وزیراعلی پہنچ رہے ہیں مگر ان کی آمد سے قبل ہی کھانا لگادیا جائے مادام کو جگادیاگیا اورکھانا ابھی صرف ہورہا تھا کہ نواز شریف پہنچ گئے مگر آج موصوفہ کی طرف سے ان کے استقبال میں وہ والہیت ناپید تھی اورمحبوب کی تانیث کا روٹھا موڈ تو چاند کے حسن کو بھی گہنا دیتاہے۔

نواز شریف شرمندہ سے بے ساختہ اپنے صنم کی طرف بڑھے اور خلاف توقع پہلی باران کا ہاتھ تھام کر کمرے میں لے گئے، کافی دیر بعد باہر آئے تو دونوں کے چہرے اور موڈ خوش گوار تھے۔ کھانے کے بعد وہ معمول کے برعکس صحن میں لگی بید کی کرسیوں پر ہی بیٹھ گئے اور پھر ہمیشہ کی طرح خوش گلو مغنیہ چاند کی روشنی میں جھولے پر دوزانو بیٹھ کر بغیر موسیقی بغیر کسی دھن کے نغمہ سرا ہوئیں تو ہر سو جل ترنگ بج اٹھے۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

1 تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×