November 4, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
کیا عبیداللہ بیگ واقعی پاکستان کے سب سے بڑے دانشور اور خوش گفتار شخصیت تھے؟
عبیداللہ بیگ

کیا عبیداللہ بیگ واقعی پاکستان کے سب سے بڑے دانشور اور خوش گفتار شخصیت تھے؟

عبیداللہ بیگ، پاکستان کے معروف دانشور، ناول نگار اور ٹی وی میزبان

جن کی عاجزی، خوش گفتاری اور علم دوست شخصیت آج بھی یاد کی جاتی ہے۔

(تحریر: محمود احمد لئیق (کالم نگار

قسط اوۤل

معروف دانشور، ناول نگار اور ٹیلیویژن کے میزبان مرزا عبیداللہ بیگ کاپاکستان کی حد تک تعارف کرانا،سورج کو چراغ دکھاناہے ۔ جب لوگوں کی ان سے ملاقات ہوتی تھی تووہ ان کی پرلطف گفتگوسے لطف لیتے، مرحوم انتہائی عاجزی سے بات کرتے تھے ۔

محسوس ہوتاہے کہ انکساری اورعاجزی ان پر ختم ہے ۔ چند ملاقاتوں کاشرف ہمیں بھی حاصل ہوا ۔ وہ اس طرح کے ہمارے ہم محلّہ جاوید مجدّدی ان کے آفس میں کام کرتے تھے ۔ اُس زمانے میں عبیداللہ بیگ علاقے، گاؤں، شہروں پر دستاویزی فلمیں بناتے تھے ۔

جاوید کی مصروفیت کاپتہ چلا توان سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی ۔ ان کو اس خواہش کاپتہ چلاتوکہا : ”کسی دن آجاؤ،ان سے ملاقات کے لیے، کوئی وقت لینا یا کوئی دوسری پابندیاں نہیں ہیں“۔

ان کے بتائے ہوئے پتہ پر ڈیفنس سوسائٹی کے علاقے میں ڈیفنس لائبریری کے عقب میں پہنچ گئے ۔ انہوں نے ہمارا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا، حالانکہ ہمارا تعارف اتناہی تھا کہ جاوید کے دوست ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتا تھا، پیرزادہ قاسم کا فرمان ہے ع ورنہ مری بساط کیا اک دیا بجھاہوا

اس مصرعہ سے ’ورنہ‘ ہٹادیاجائے تو کسی حدتک ترجمانی ہوسکتی ہے ۔ پھربھی بھی مثال غلط ہے ۔ دیاجلتاہے تب ہی اسے بجھایا جاتا ہے، لیکن جوکبھی جلاہی نہ ہوتواسے بجھا ہوا نہیں کہاجاسکتا ۔

بُری محبت سے مکالمے کاآغازہوا، عبیداللہ بیگ اس اندازسے گفتگوکررہے تھے جیسے یہ خاکسار کوئی بڑا دانشورہے اور ہم سے کچھ سیکھناچاہ رہے ہیں، ہم اپنی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھے کہ من آنم کہ من دانم ۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اٹھنے کا ارادہ کیا توفرمایا، کچھ دیراورتشریف رکھیں، گفتگومیں مزا آرہاہے ۔ ہم خوش فہمی میں مبتلاہوگئے کہ ہماری گفتگوسے انتہائی سنجیدہ مزاج لوگ، دانشور اور حلیم الطبع لوگوں سے بات چیت اس قدردلچسپ ہوسکتی ہے ۔

اس دوران بد کلامی کا کوئی لفظ ہماری طرف سے ادانہیں ہوا، کوئی ذومعنی لطیفے تک بھی پہنچ نہ ہوئی حالانکہ یہ عام پاکستانیوں کی گفتگوکا جزولاینفک ہے ۔ان کی گفتگوکی ترجمانی احمد فراز سے اس شعرسے ہوتی ہے ۔

سناہے وہ بولے توباتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے توچلوبات کرکے دیکھتے ہیں

آخرمیں صرف یہ کہا کہ : ”آپ رہنے والے رام پور کے ہیں؟ جہاں کی چھریاں مشہورہیں ؟ لیکن گفتگوآپ کی لکھنئووالوں کی طرح کی ہے“۔ یہ سن کراتنا ہنسے کہ میں پریشان ہوگیا ۔ کچھ زیادہ وضاحت تونہیں کی بس اتنا بتایا کہ رام پورپٹھانوں کی ریاست تھے ۔

وہاں کے لوگوں کا مزاج سخت ہوتاہے، لیکن اپنے رویّہ کی وضاحت نہیں کی ۔ ہم نے رام پورکی ریاست کے حاکم کی کارکردگی کا ذکرنہیں کیا جو مختلف کتابوں کے مطالعے سے ہمارے علم میں آئے تھے کہ حاکمِ رام پورکی دلچسپی حسیناؤں اورمجروں تک محدودتھی ۔

ایک کتاب ہے ”فریڈم ایٹ مڈنائٹ“ یعنی آدھی رات کی آزادی ۔ دوگوروں کی لکھی کتاب ہے جس میں ریاست کے حاکموں کی خاص توجہ اور شوق کا ذکرکیا گیاہے ۔

آخر میں ہم نے اپنی کچھ الٹی سیدھی تحریریں آپ کے حوالے کر رہے ہیں تا کہ پڑھ کرآپ اپنی رائے دیں ۔ کہاوت مشہور ہے کہ دوسرے کی بیوی اور اپنی اولاد سب کوپسند ہوتی ہے ۔ ہم نے اس میں اتنی تبدیلی کردی ہے کہ اپنی پکائی ہوئی ڈش اوراپنی تحریر کا بھی یہی عالم ہوتا ہے ۔

لیکن پھربھی ہم ایک غیرجانبدارانہ رائے سننے کے مشتاق تھے ۔ ہمیں کیاپتہ تھا کہ بیگ صاحب اپنی اتنی مصروفیات کے باوجود اتنی جلد پڑھ لیں گے ۔ شام کے وقت جاوید دفتر سے واپسی پر ہمارے گھر تشریف لائے اور بتایا کہ عبیداللہ بیگ صاحب نے تحریرکا بہت لطف لیا اور بہت تحسین آمیز الفاظ اداکیے ۔

ہم نے اسے بڑوں کی طرف سے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی پرمحمول کیا ۔ بزرگوں کا کام ہے کہ ہرمیدان میں نئے لوگوں کی حاصلے بڑھائیں ۔ ایک دن ہماری موجودگی میں وہاں فرش کی صفائی اورپوچا لگانے والاجاوید سے الجھ پڑا ۔

قبل اس کے کہ جاوید اپنی زبان میں اسے کچھ سناتے، عبیداللہ بیگ صاحب نے مداخلت کی اور اس خاکروب سے کہا : ”دیکھیئے ہم آپ کی خدمت کا اتنا ہی معاوضہ دے سکتے ہیں، اگر آپ اسے مناسب نہیں سمجھتے تو فیصلہ کرلیں“۔

ہم پریشان تھے کہ بھنگی سے آپ جناب سے گفتگوہورہی ہے جب کہ داغ دہلوی کہہ گئے ہیں رنج کی جب گفتگوہونے لگی آپ سے تم، تم سے تُوہونے لگی ۔ اس وقت بات رنج کی تھی لیکن عبیداللہ بیگ صاحب کامزاج آپ سے آگے بڑھنے کی حد عبورکرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔ سوچا ہم یا جاوید ہوتے تو بات تَوسے بڑھ کر’تیری‘ تک پہنچ جاتی ۔

ایک ملاقات میں ذکرعنایت علی خان مرحوم (معروف مزاحیہ شاعر) کا آگیا، ہم نے دریافت کیا ،ان سے ملناچاہیں گے، فرمایا ملنا توبہت چاہتا ہوں، لیکن وہ سیڑھیاں چڑھ کر کیسے آئیں گے“؟ (یادرہے کہ ان کا دفترپہلی منزل پرتھا) ۔

خیر ان کو بتائے بغیر ایک دن ہم عنایت صاحب کوان کے دفتر لے گئے (عنایت صاحب ان دنوں حیدرآبادمیں مقیم تھے لیکن کراچی آناجانالگارہتاتھا)۔ دفترمیں داخل ہوتے ہی جب عبیداللہ بیگ صاحب کی نظرپڑی توکھڑے ہوگئے ۔

فرمایا : ”زہے نصیب ! زہے نصیب“ یہ گردان کئی مرتبہ دہرائی اور دروازے تک جاکر ان کا ہاتھ پکڑکر کرسی تک لائے ۔ طویل گفتگوہوتی رہی ۔ وہ ہمارے بہت ممنون تھے کہ یہ ملاقات کرائی ۔ اس قدر والہانہ استقبال ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

عبیداللہ بیگ صاحب سے یہ سیکھا کہ کسی محبوب وپسندیدہ شخص کا کیسے استقبال کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل ہماری جن شخصیات سے ملاقات ہوتی تھی، وہ علم و فضل کی پہنچی ہوئی شخصیات توتھیں، لیکن ان کی تکبّر،رعونت اور خودنمائی دیکھ کرکبھی اٹھ کر ملنے کی توفیق نہ ہوسکی ۔

چندسال قبل کسی چینل پرپچاس سال قبل کے مشہور پروگرام ’کسوٹی‘ دوبارہ پیش کیاگیا۔ لیکن اس مرتبہ سوال پوچھنے اور شخصیت کوبوجھنے والی دو افرادکی ٹیم نہ تھی، اکیلے صرف بیگ صاحب تھے ۔

کسی مہمان نے طارق فتح کومنتخب کیا ۔ طارق فتح ایک دین کے باغی انسان تھے ۔ کوئی معروف شخصیت نہ تھے، سن1969 سے سن 70 میں جامعہ کے بائیں بازو کے سرکردہ کا رکن تھے ۔ کسی جماعت کاتنظیمی عہدہ نہ رکھتے تھے اور نہ کبھی طلبا یونین کے انتخاب میں حصّہ لیا ۔

جیالوں کے دورسفارش کی بنیاد پر پی ٹی وی کے خبروں کے انچارج بن گئے تھے، اس وقت تک ان کا ان کا اس میدان میں کوئی تجربہ نہ تھا،کئی افراد جو ان سے کہیں سینئر تھے ۔ ان کے سرپرانہیں سوارکردیاگیا، کہتے ہیں :”جسے پیاچاہے وہی سہاگن“۔

جب جیالوں کی حکومت ختم ہوئی تو انہیں اپنا بوریا بسترلپیٹنا پڑا ۔ سعودی عرب چلے گئے، چند سال وہاں گزارکرکینیڈاگئے اور اسلام کے خلاف سرگرمی شروع کردی ۔ قصّہ مختصر،خاکسارنے اس سے کہا کہ طارق فتح ایسی شخصیت تونہیں ہے جسے معلومات عامّہ میں پوچھاجائے ۔

ہم نے بڑی لمبی تقریرکی کہ ایسے لوگ خودکومقبول کرنے کے لیے ایسی حرکت کرتے ہیں ۔ وہ ہماری باتیں سنتے رہے، گوانداز گفتگوسے ظاہر تھا کہ ہماری بات سے اتفاق کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوں نے کینیڈا میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف کتاب لکھی ہے۔ لیکن اس کے خلاف کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے اتناکہا : ”پھربھی ہم نے اسے بوجھ لیا“۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی کے خلاف منفی تبصرہ کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں ۔

اختلاف کرتے ہیں لیکن تنقید سے دور رہتے ہیں ۔ ایساہی ایک موقع اور آیا ۔ برّ صغیر کی تقسیم سے قبل تین بڑے ادبی ماہنامے نکلتے تھے ۔ لکھنئوسے ’ نگار‘، دہلی سے ’ساقی‘ اور لاہورسے ’ادب لطیف‘ ۔ ماپنامہ نگار کے مدیرنیازفتح پوری جب علّامہ اقبال سے ملاقاے کرکے گئے توواپس آکراپنے رسالے میں علّامہ پر بڑا توہین آمیز مضمون لکھا ۔

انہوں نے ان کے تلفّظ کا مذاق اڑایاکہ وہ اقبال کو’ اکبال‘ کہتے ہیں ۔ ملازم کوکہاحقّہ کی جگہ’حکّہ‘لانے کی ہدایت کی۔ حالانکہ دنیابھرمیں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پنجاب کی بڑی اکثریت قدرتی طورپر ’ق‘ کہ جگہ ’ک‘ کہتی ہے ۔

ہمارے میمن بھائیوں کی اکثریت بھی اس خوبی سے سرخ روہے ۔ یہ ایک قدرتی نقص(Manufacturing Defect)ہے۔ ہم نے ایک مضمون میں ان کانام لکھ کر بیان کیا : ”انہوں نے بڑے رکیک انداز سے علّامہ کی تضہیک کی“۔ بیگ صاحب نے پڑھنے کے بعد مسودہ میں سے ’رکیک انداز‘ کے الفاظ کاٹ دیئے ۔

ہمیں کہاکہ مصنف نے جوعامیانہ انداز اپنایاہے وہ تو اس مضمون کے پڑھنے والوں نے محسوس کرلیاہوگا۔ آپ (یعنی یہ خاکسار) کیوں غلاظت کوکرید رہے ہیں“۔ غالب یاد آگئے :”کریدتے ہوراکھ جستجوکیا ہے“۔ اس سے ایک بار پھر ہمیں پتہ چلا کہ وہ کسی کے بارے میں منفی تبصرہ نہیں کرتے ہیں چاہے کتنا بھی برحق ہو۔

ایک مرتبہ اپنی تحریرکردہ ایک سیاسی مضمون جو شاید سن 2011 میں اردوڈائجسٹ میں چھپا تھا، ان کو مطالعے کے لیے دیا تو ہمیں سیاست سے باز رہنے کامشورہ دیا ۔ ہم نے کہا، ہماراخمیر ہی سیاسی گفتگواورتبصرے سے بناہے تو چند ایسے صحافیوں کی مثال دی جو کچھ عرصہ قبل مخالف گروپوں اور حکومت کی بربریت کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔

ان کی باتیں،ان کاطرزعمل دیکھ کرفیض یاد آتے رہے ۔ وہ تووہ ہے، تم کوہوجائے گی الفت مجھ سے اک نظرتم مرامحبوب نظرتودیکھو ۔

عبیداللہ بیگ صاحب سے ہماری جب ملاقات ہوئی تووہ ستر تک پہنچ چکے تھے لیکن اس عمرمیں بھی خوش شکل، خوش اخلاق، خوش گفتار غرض کہ خوش کے ساتھ جوتعریفی کلمات جوڑدو، سب ان کی شخصیت کاحصّہ رہاہے۔ سناہے کہ غصّہ، طیش کے عالم میں گفتگوکرنا، ان کی فطرت میں داخل نہیں تھا ۔ ٹھہرٹھہرکربات کرنا، مخاطب کی بات بڑے غورسے سننا، ان کی شخصیت کا اہم پہلوتھا ۔

ایک ملاقات میں انہوں نے ایک مختصرناول پڑھنے کودیا :’سراب‘۔ ایک نیم رومانی ناول مگرخطوط پرمبنی تھا ۔ پڑھ کربہت اچھالگا تاہممزید برآں یہ کہ اگلی ملاقات میں اس ناول کی بہت تعریف کی توفرمایا :”اس پرآپ تبصرہ تحریرکردیں“ ۔

چنددنوں بعد ناول سے متعلق تاثرات قلم بندکرکے پیش کیے توفوراً پڑھ کر کہا :”دوتین تبصرے اور لکھے گئے ہیں، لیکن آپ کاتبصرہ سب سے بہترہے“ ۔ ہم اس پرنازاں تھے ۔ شاید وجہ یہ تھی کہ ناول کی خط و کتابت کوہم نے غالب کے خطوط اور بیگم صفیہ اختر (آج کے معروف فلمی مصنف اور شاعر جاویداخترکی والدہ) کے شوہرکے نام خطوط ”زیرِ لب“ کے بعد انتہائی دلچسپ اور بہترین قرار دیاتھا ۔

یہ بھی پڑھیں

کیا ہے اور یہ دنیا کے لیے کیوں اہم ہے؟ (GGI)چین کا عالمی نظم و نسق

نواز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلی کا حسین دور

کچھ دن بعد ان کے دفترمیں ہماری موجودگی میں دواصحاب تشریف لائے ۔ ایک خواجہ عطاء اللہ اور دوسرے اسدواحدی صاحب ۔ ہمارا تعارف کرایاگیا، ساتھ ہی بیگ صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ تبصرہ ہماراتحریرکردہ ہے ۔

اسد واحدی صاحب (مصنف مذکورہ ناول) نے کچھ کہا تونہیں لیکن دوران گفتگوان کا التفات بتارہا تھا کہ انہیں وہ تبصرہ پڑھ کربہت خوشی ہوئی ۔ یہ معمول ہوگیا کہ ہر مرتبہ وہ کچھ وقت مزید روکتے ۔

اب ہم انٹر نیٹ پردی گئی ان کی شخصیت کی تفصیل پرنظر ڈالتے ہیں۔ وہ پہلی اکتوبرسن 1936 کورام پورمیں پیداہوئے اور 22 جون سن 2012 کو کراچی میں پورے ادبی عالم کوسوگوار چھوڑگئے ۔

انہوں نے تین سو سے زائد ڈاکومینٹری بنائیں جو جنگلات، ریہاتی زندگی اور تاریخی مقامات پرمبنی تھیں ۔ ان کے توسط سے علم ہوا کہ علم کاتعلق ڈگری سے نہیں ہوتاہے ۔ ان کی درسی تعلیم صرف انٹر تک تھی ۔ ان کے مطالعے اور یادداشت پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان سے صحبت گرچہ کہ بہت مختصر رہی پھربھی بہت سیکھا ۔

گرچہ تھوڑاتھا،تری ذات سے پایابہت توہوارخصت تویہ خیال آیابہت

عبیداللہ بیگ صاحب رخصت ہوئے توناصر کاظمی یاد آتے ہیں وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا سدارہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مرگیا وہ وہ ۔جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کرسفرکیا تونے منزلوں کا تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سرجھکائے گزرگیا وہ ۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×