بلوچستان کے ضلع ژوب اور نصیر آباد کے اضلاع میں گزشتہ
ایک دہائی کے دوران درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ ہوا ہے ۔
صرف بلوچستان میں، گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً نصف ایکڑ درختوں کا 0.086 فیصد احاطہ ختم ہو چکا ہے۔
رپورٹ: روبینہ یاسمین
سن2020 میں شیرانی میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تاہم 2022 کے موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔
اس انتہائی درجہ حرارت نے علاقے کے ٹھنڈک کے بنیادی ذریعہ یعنی بارشوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
کوئٹہ سے 4 گھنٹے کی مسافت پر واقع شیرانی جنگل ملک کے سب سے بڑے پھلوں والے علاقوں میں سے ایک ہے، جو بلوچستان اور خیبر پختونخوا سرحد کے قریب ژوب ڈویژن میں واقع ہے۔
یہ علاقہ 26,000 ہیکٹر پر پھیلا ہواہے اور 10.8 ملین سے زیادہ پائن کے درختوں کا گھرتصور کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی قیمت 20،000 روپے سے زیادہ ہے۔
شیرانی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے اور رزق کے حصول کے لیے صرف بارشوں پر انحصار کرتا ہے۔
یہاں کے زیادہ تر لوگ مویشی اور جنگلی جانور پالنے کے علاوہ پہاڑوں پر چھوٹی گھاس اور دیگر پودوں کو بھی پالتے ہیں۔
لیکن شیرانی میں بارش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ان مویشیوں اور جنگلی جانوروں کے کھانے کی خوراک کی قلت، جو بالآخر ان کی موت کا باعث بنے گی۔
اگر موسمی حالات ایسے ہی برقرار رہے تو صوبہ بلوچستان’’خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے یا پھر خشک سالی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
شیرانی جنگل کے لوگوں کے لیے ان کی سب سے قیمتی ملکیت دیودار کے درخت ہیں۔
چلغوزہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے، چل کا مطلب ہے 40 اور غوزہ کا مطلب ہے بیج، جو اس حقیقت سے متعلق ہے کہ ایک پائنکون 40 بیجوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

شیرانی جنگل میں چلغوزہ کے ایک کروڑ سے زیادہ درخت ہیں بعنی ’’ایک ہی ہیکٹر زمین میں تقریباً 956 درخت‘‘، جن میں سے ہر ایک کی قیمت 25,000 سے 30,000 روپے کے درمیان ہے۔
چلغوزہ کے یہ درخت ہر سال تقریباً 675 میٹرک ٹن (تقریباً 675,000 کلوگرام) چلغوزے پیدا کرتے ہیں، جس کی سالانہ تجارت $2.6 بلین بنتی ہے۔
چلغوزہ کے درخت کے اُگنے کی رفتار سست ہوتی ہے ہی وجہ ہے کہ انہیں پختہ ہونے اور پھل دینے میں دہائیاں لگتی جاتی ہیں۔
مئی سے اگست تک کے مہینوں کو چلغوزے کے لیے’’بڑھتی ہوئی موسم‘‘ کہا جاتا ہے۔
پاکستان شیرانی جنگل سے حاصل شدہ یہ چلغوزے چین، دبئی اور فرانس سمیت دیگر ممالک کو برآمدکرتا ہے۔
یہاں درختوں کی شجرکاری 20 جنوری سے 20 فروری کے درمیان ہوتی ہے اور ستمبر کے مہینے میں، کاشت شروع ہوتی ہے۔ لیکن اب یہاں 40 فیصد درخت ختم ہو چکے ہیں۔
سال 23-2022کی پیداوار میں 50 فیصد سے زیادہ کمی آئے ہے۔ اب ’’کھوئی ہوئی فصل کو واپس آنے میں تقریباً چار دہائیاں لگیں گی۔
چلغوزے جو بہت حساس پھل ہیں شدید درجہ حرارت کی وجہ سے دم گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی بھی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جائے تو اس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کو ہونے والے نقصانات کم از کم اگلی پانچ نسلوں کو ورثے میں ملتے ہیں۔
’’میرے پاس ابھی تک سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن اگر میرا جائزہ درست ہے تو مقامی لوگوں کو کم از کم 50 ملین روپے کا نقصان ہوا ہے،‘‘ اقوام متحدہ کے اہلکار نے اندازہ لگایا۔
صرف یہی نہیں، ’’ہم نے جو درخت کھو دٸیے ہیں انہیں دوبارہ اگنے میں کم از کم 50 سال لگیں گے‘‘۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ انسانوں کی طرح درختوں کو بھی چوٹیں لگتی ہیں جو ظاہری طور پر اس طرح ظاہر تو نہیں ہوتیں لیکن خوفناک نقصان پہنچاتی ہیں۔
آگ کی شدت کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہے “پائن اپنے پتوں میں کشمش رکھتا ہے جو بہت جلد آگ پکڑتا ہے کیونکہ یہ گرمی کا موصل ہے۔
لہذا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اتنے بڑے علاقے کو گھنٹوں کے اندر ہی آگ اپنی لپیٹ میں لےلے۔
کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں جنگلات کی ڈھلوان 70 ڈگری سے 80 ڈگری کے درمیان ڈھلوان کی سمت میں واقع ہے۔ لہذا، یہ علاقے کو انسانی پہنچ سے دور بھی رکھتا ہے۔
جنگلات میں آگ فرش یا سطح سے شروع ہوتی ہے، جہاں عام طور پر دیگر پودوں کے درمیان گھاس ہوتی ہے۔ اس قسم کی آگ اتنی خطرناک نہیں ہے اور اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک ایسی آگ بھی ہے جو جنگل کے تاج میں اچانک بھڑک اٹھتی ہے۔
درختوں کا عین مطابق ہونا
کراؤن فائر ایکڑ اراضی اور اس کے راستے میں آنے والے درختوں کو منٹوں میں خاک میں ملا دیتے ہیں اور ابتدائی مرحلے میں ہی اس پر قابو پانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
شیرانی میں سن2022 کی آگ میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ ہر چیز آگ کی لپیٹ میں تھی کیونکہ درختوں میں آگ لگی ہوئی تھی اور وہ اسے ہر طرف پھیلا رہے تھے۔ آگ پر قابو پانے کے دوران 5لوگ ہلاک بھی ہوئے۔

ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو اسے بجھانے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے علاوہ آگ لگنے کی قیمت کئی اور جاندار بھی برداشت کرتے ہیں۔
شیرانی کے جنگلات میں واپس آتے ہوئے، ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اہلکار حسین نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لگنے والی آگ قبائلی دشمنی کا نتیجہ ہو سکتی ہے کیونکہ’’آگ کے بعد سامنے آنے والے نتیجے کے مطابق‘‘ ایسا لگتا ہے جیسے یہ آتش زنی تھی۔
انہوں نے مزید کہا ، “لیکن ابھی کچھ بھی اہم بات کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم، تکنیکی ماہر نے ’’ابتدائی مرحلے میں آگ پر قابو پانے‘‘ کے لیے جنگلات میں ارلی وارننگ سسٹم اور ہیٹ سنسر لگانے کی بھی سفارش کی۔
پاکستان میں جنگلات کی آگ گلوبل فاریسٹ واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک اوپن سورس ویب اقدام جو کہ قریب قریب حقیقی وقت میں عالمی جنگلات کی نگرانی کرتا ہے۔
پچھلی دہائی میں2011سے2021 کے درمیان، پاکستان میں 1.28 کلو ہیکٹر1کلو ہیکٹر کے برابر کا نقصان ہوا ہے۔ 2471.05381 ایکڑ درختوں کا احاطہ، 2000 کے بعد سے درختوں کے احاطہ میں 0.13 فیصد کمی، اور کاربن کے اخراج میں 481 میٹرک ٹن کے برابر۔ نقصان کا غالب ڈرائیور جنگلات کی کٹائی تھا۔
ان میں سے زیادہ تر جنگلات خیبر پختونخواہ اور سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں واقع تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں چوٹی کے آگ کا موسم عام طور پر جنوری کے وسط۔میں شروع ہوتا ہے اور تقریباً 23 ہفتوں تک رہتا ہے۔
تقریباً 23 ہفتوں تک رہتا ہے۔ 31 مئی 2021 اور 23 مئی 2022 کے درمیان، تقریباً 1,921 VIIRS فائر الرٹس بادل اور ایروسول کی خصوصیات، سمندر کے رنگ، سمندر اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت، برف کی نقل و حرکت اور درجہ حرارت، اور آگ کی پیمائش کے لیے استعمال ہونے والے ڈیٹا کی اطلاع دی گئی۔
گلوبل فارسٹ واچ کو تشویش ہے کہ یہ تعداد 2012 کے پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اس سال پاکستان میں ہیٹ ویو نے پارے کی سطح کو مزید بلند کیا ہے، جس سے آگ لگنے کے لیے تقریباً دو ہفتے تک سازگار حالات موجود ہیں۔
سخت گرمی پودوں کا سارا پانی چوس لیتی ہے اور اسے خشک کر دیتی ہے، جس بنا پر آگ لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ماہر ماحولیات داور بٹ نے اتفاق کیا ہے کہ ’’خشک پودے آتش گیر ہیں، اور یہاں تک کہ معمولی چنگاریاں بھی آگ لگانے کا باعث بن سکتی ہیں۔
مزید برآں، خشک ہوائیں چنگاریوں سے آگ کو طویل فاصلے تک مزید پھیلانے کا کام کرسکتی ہیں۔
پاکستان کے وسطی علاقوں کو پری مون سون مہینوں میں خشک موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس خشک موسم میں، ہر سال چھٹپٹی آگ لگتی ہے۔
تاہم، سال2022 میں خاص طور پر، خشک موسم کا آغاز جلدی ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہیٹ ویو بھی تھی، جس نے جغرافیائی علاقے میں آگ کو بہت بڑا اور وسیع بنا دیا۔
پاکستان میں جنگلوں میں آگ لگنے کا موسم، جو عام طور پر جون میں شروع ہوتا ہے اور اگست تک رہتا ہے، سال 2022کے شروع میں آیا، جس نے پاکستانی حکام کو حیران کر دیا۔’’اس کا الزام تیزی سے بدلتے ہوئے آب و ہوا کے حالات پر لگایا جا سکتا ہے‘‘۔

لیکن شیرانی میں آگ اتنی شدید تھی کہ ہیلی کاپٹر ناکافی ثابت ہوا‘‘۔
ہیلی کاپٹر 35,000 لیٹر پانی آگ بجانے کے لئے لایا تھا وہ گھاس کے ڈھیر میں سوئی کی مانند تھا۔
بلوچستان کے جنگل میں لگی آگ 15 دنوں سے کوہ سلیمان رینج میں بھڑکتی رہی اور اس نے 100,000 سے زیادہ دیسی چلغوزہ اور زیتون کے درختوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔
ایف اے او کے صوبائی کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کے مطابق، پہلی آگ 9 مئی کو خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان کے جنگلات میں لگی جہاں یہ چھوٹی اور کم شدت والی تھی۔ لیکن ہوا کی تیز رفتاری کی وجہ سے آگ بڑھ گئی اور 12 مئی تک یہ بلوچستان میں داخل ہو گئی۔
موسی خیل کے طور شاہ پہاڑ پر واقع زیتون کا جنگل 800 سے زائد درختوں کے جھلسنے کے بعد آگ کا پہلا شکار بنا۔
واضح رہے کہ کوہ سلیمان جنگل کے بعد یہ ضلع کا دوسرا سب سے بڑا مقامی جنگل ہے اور یہاں زیتون کے لاکھوں قدرتی درخت ہیں، جن میں سے اکثر کی عمر تقریباً 500 سال ہے۔
تیسری آگ نے اس بار، دنیا کے سب سے بڑے چلغوزہ کے جنگل پر حملہ کیا جس میں چالیس40 فیصد درخت جل کر راکھ ہو گئے۔

جب آگ تھوڑی سی کم ہوئی تو ریسکیو ٹیموں کے ساتھ مقامی حکام بالا کے لوگ جنگل کے اندر گئے۔
انہوں نے بتایا کہ, ہم نے وہاں خرگوش، لومڑی، سلیمان مارخور، کالے ریچھ اور گیدڑ جیسے جانوروں کی جلی ہوئی لاشیں دیکھیں جو خود کو آگ سے بچانے میں ناکام رہے۔
یہ جنگلی جانور اس علاقے کی مقامی نسلیں ہیں اور ان کا نقصان کم سے کم نظر آ سکتا تھا۔ لیکن اب آگ لگنے کے بعد یہ علاقے کے ماحولیاتی نظام اور تنوع کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
20 مئی سے 27 مئی 2022 کے درمیان صوبے میں 25 سے زائد VIIRS فائر الرٹس رپورٹ ہوئے، جن میں سے 28 فیصد “ہائی کانفیڈینس الرٹس” تھے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
موسمیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بلوچستان کے جنگلوں میں لگنے والی آگ انتہائی درجہ حرارت کا نتیجہ ہے جبکہ فارسٹ آفیسرز اور مقامی افراد اسے یکساں طور پر ’’انسانی تخریب کاری‘‘کا نتیجہ گردانتے ہیں۔
کیا واقعی پاکستان میں جنگلات میں لگنے والی 90 فیصد آگ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے یا آگہی کی کمی کی وجہ سے لگ جاتی ہے اب تک یہ ایک معمہ ہے جو حل طلب ہے۔
تاہم ایک واقعہ جو ہماری یادوں میں اب بھی تازہ ہے جب ایک ٹک ٹوکر نے ایک ایسی ویڈیو عکس بند کی تھی جس میں پس منظر میں جنگل میں آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ جنگل خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں واقع تھا۔ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو گزشتہ سالوں کے دوران ایسی متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں جہاں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ جنگل میں آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔
کبھی کبھی لوگ جنگلوں میں سگریٹ کے بٹوں کو جلتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں، بعض اوقات یہ باربی کیو کی باقیات ہوتی ہیں۔
کبھی ٹھنڈ سےبچنے کے لٸے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی کو جلانے والے بجھانا بھول جاتے ہیں۔ اور کبھی ٹمبر مافیا جنگل کو سلگا دیتی ہے۔
لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جنگل کی آگ میں ہمیشہ انسانی ہاتھ کا عمل دخل شامل رہا ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ اگر اس کو روکنے کے لیے جنگلات کی اہمیت کے بارے میں بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس کے مثبت رجحانات سامنے آئیں گے۔
تب شاید ہم حقیقت میں معدنیات سے مالا مال پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے جنگلوں کو آگ کی لپٹوں سے بچانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔