سمندری پردے، برف کو دوبارہ جمانے کی کوششیں اور اربوں ڈالر کے خواب, نئی رپورٹ نے سب کو ناقابل عمل قرار دے دیا
ویب نیوز رپورٹ: روبینہ یاسمین
دنیا بھر کے سائنسدان آج ایک ایسے سوال پر سوچ رہے ہیں جو سننے میں کسی سائنس فکشن فلم کی کہانی لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ہمارے مستقبل سے جڑا ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا انسان آرکٹک اور انٹارکٹک جیسے قطبی خطوں کو دوبارہ جما سکتے ہیں‘‘؟
زمین کی برف اور انسان کے خواب کا تعلق
یہ سوال اس وقت اور زیادہ اہم ہو گیا ہے جب دنیا بھر میں برف کی چادریں تیزی سے پگھل رہی ہیں ۔ برف کے تیزی سے پگھلنے کا مطلب ہے کہ دنیا کے سمندروں کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا، جو ساحلی شہروں، زرعی زمینوں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گا۔
تاہم حقیقت میں دنیا بھر کے سائنسدان اور کمپنیاں آرکٹک اور انٹارکٹک کی برف کو دوبارہ جما نے کے لئے اس پر تحقیق کر رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ سمندر کی تہہ میں ایسے دیو ہیکل پردے لگائے جائیں جو گرم پانی کو روک کر برف کو بچا سکیں ۔
یعنی قطبی خطوں کو مصنوعی طریقے سے دوبارہ ٹھنڈا کرنے کے بارے “Polar Geoengineering” یہی وہ پس منظر ہے جس میں سائنسدان اور مختلف ادارے
میں سوچ رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے دلچسپ مگر خطرناک منصوبے
کچھ سائنسدانوں نے حیران کن خیالات پیش کیے ہیں تاکہ آرکٹک کو دوبارہ جما سکیں ۔ ان میں سے کچھ منصوبے ایسے ہیں جو سننے میں تو بڑے جدید لگتے ہیں لیکن ان کے خطرات بھی اتنے ہی بڑے ہیں ۔
زیرِ آب دیواریں (Sea Curtains)
یہ منصوبہ یہ کہتا ہے کہ سمندر کے اندر بڑی بڑی دیواریں تعمیر کی جائیں تاکہ گرم پانی گلیشیئر تک نہ پہنچ سکے۔ اس طرح برف پگھلنے کی رفتار کم ہو جائے گی۔ لیکن محققین کے مطابق یہ منصوبہ ناقابلِ عمل ہے کیونکہ صرف 50 میل لمبی دیوار بنانے کی لاگت 80 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ سمندری حیات کو بری طرح متاثر کرے گا ۔
برف کو مصنوعی طور پر موٹا کرنا
ایک اور آئیڈیا یہ ہے کہ سمندر کے پانی کو پمپ کر کے برف پر ڈال دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ جم کر برف کی تہہ کو موٹا کر دے ۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ موسمی حالات پر منحصر ہوگا اور بڑے پیمانے پر کرنا ناممکن ہے۔
برف پگھلنے کی سنگین حقیقت
کے مطابق، پچھلی چار دہائیوں میں آرکٹک کی برف میں 40 فیصد کمی آ چکی ہے ۔ NASA
ناسا کی رپورٹ کے مظابق سن 1980 میں جتنی برف تھی، آج اس کا آدھا بھی موجود نہیں ۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے اور گلوبل وارمنگ کے اثرات پہلے سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں ۔
برف کے پگھلنے کی حقیقت: کیا انسانیت کے لیے سب سے بڑا الارم ہے؟
گرین لینڈ اور انٹارکٹک کی برفانی چادریں (آئس شیٹس) اتنی بڑی ہیں کہ اگر یہ مکمل پگھل جائیں تو سمندر کی سطح 70 میٹر تک بلند ہو سکتی ہے ۔
اقوام متحدہ (UN) اور IPCC رپورٹس کے مطابق دنیا اس وقت پہلے ہی خطرناک حد تک گرم ہو چکی ہے، اور پگھلتی برف موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کی سب سے بڑی علامت بن چکی ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ صرف گرین لینڈ میں ہر سال 250 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے ۔ سوچیں، اگر یہ تیز رفتار جاری رہی تو کراچی، نیویارک، لندن، شنگھائی اور دنیا کے درجنوں ساحلی شہر پانی میں ڈوب سکتے ہیں ۔
(Polar Geoengineering) پُرکشش مگر خطرناک تجاویز
منصوبے پیش کیے ۔ ‘‘Moonshoot’’ بائیس 22 سائنسدانوں اور انجینئرز نے برف بچانے کے لیے پانچ بڑے
کیا ہوگا اگرسمندری پانی برف پر ڈالیں؟
خیال یہ ہے کہ پمپنگ کے ذریعے سمندر کا پانی برف پر ڈالا جائے تاکہ وہ جمی رہے اورنتیجتاََ برف کی موٹائی بڑھ جائے ۔ لیکن حقیقت میں یہ کام بڑے پیمانے پر ممکن نہیں۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ برف کو دوبارہ جمانے کے لئے لاکھوں گیلن پانی پمپ کرنے کے لیے اربوں ڈالر اور انرجی چاہیے، اور یہ ماحول کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔
بکھیرنا (Glass Beads) برف پر شیشے کے ذرات
سورج کی روشنی واپس منعکس کر کے برف کو پگھلنے سے روکیں گے ۔ Tiny Beads یہ چھوٹے
لیکن بین الاقوامی سائنسی رپورٹ کے مطابق یہ ذرات سمندر کے ماحول کو آلودہ کریں گے اور سمندری حیات کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں ۔
(Sea Curtains) دیوہیکل سمندری پردے
سمندر کی تہہ میں بڑے بڑے پردے لگا کر گرم پانی کو روکنا تاکہ وہ برف تک نہ پہنچ سکے ۔
اس اقدام سے مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ یہ پردے وہیل، سیلز اور دیگر سمندری جانداروں کے رہائشی نظام کو برباد کر دیں گے۔ واضح رہے کہ ایک پردہ لگانے کی قیمت تقریباً 80 ارب ڈالر بتائی گئی ہے ۔
(Solar Geoengineering) سورج کی روشنی کم کرنا
فضا میں ذرات چھوڑ کر سورج کی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکنا تاکہ درجہ حرارت کم ہو۔
خطرہ: یہ طریقہ عالمی موسمی پیٹرنز (مون سون, سائکلون) کو بدل سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے خطے شدید بارشوں یا قحط کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
سمندر میں غذائی اجزاء ڈالنا
آئرن جیسے غذائی اجزاء ڈال کر پلاکٹن کو بڑھانا تاکہ وہ زیادہ کاربن جذب کرے ۔
حقیقت میں اس طرح کے اقدامات سمندر کے قدرتی نظام کو بگاڑ دے گا اور فوڈ چین پر تباہ کن اثر ڈالے گا ۔
رپورٹ کا نتیجہ: “یہ سب خیالی پلاؤ ہیں”
یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے سائنسدان مارٹن سیگرٹ اور ان کی ٹیم کے مطابق، پانچوں تجاویز ناقابل عمل ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ ماحول کو مزید نقصان پہنچائیں گی ۔ مزید برآں ان پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی اور کوئی بھی منصوبہ وقت پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
سائنسدانوں میں تقسیم
ہیں لیکن کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ “Silver Bullet” کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ منصوبے
کہتے ہیں کہ Shaun Fitzgerald کیمبرج یونیورسٹی کے شان فٹزجیرالڈ
پر تحقیق بند نہیں کرنی چاہیے بلکہ خطرات پر کھلی بحث ضروری ہے۔ Geoengineering جیوانجئیرنگ
کم کرنے کی توجہ ہٹانے والے مشغلے ہیں۔ Emission لیکن زیادہ تر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ سب صرف
پاکستان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ 🇵🇰
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو برف کے پگھلنے کے اثرات کا براہِ راست شکار ہوگا ۔ کراچی اور سندھ کے ساحلی علاقے سیلاب اور سمندری طوفان کے خطرے میں ہوں گے ۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ پر بھی اثر پڑ سکتا ہے ۔ لاکھوں لوگ ‘موسمیاتی پناہ گزین‘‘ بن سکتے ہیں ۔
میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا ۔ (COP، UN Summits) چناچہ موجودہ وقت کی ضرورت کے مطابق، پاکستان کو عالمی مذاکرات
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں توانائی کے منصوبے اور ماحولیات
پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی
سندھ کے ساحلی علاقوں پر بڑھتے خطرات
اصل حل کیا ہے؟
رپورٹ کے مطابق برف بچانے کا واحد پائیدار حل یہ ہے کہ: گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں فوری کمی کی جائے ۔
پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ Renewable Energy (Solar, Wind, Hydro)
پر انحصار ختم کیا جائے ۔ Fossil Fuels
سخت کی جائیں ۔ Climate Policies عالمی سطح پر
نتیجہ: سائنسدانوں کی وارننگ اور انسانیت کا امتحان
منصوبے دلچسپ ضرور لگتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ زمین کے ساتھ مزید خطرناک تجربات ہیں ۔ high-tech یہ تمام
اگر برف کے یہ ذخائر ایک بار تباہ ہو گئے تو دوبارہ کبھی بحال نہیں ہوں گے ۔
کے بجائے اصل راستہ اپنائے ۔ کاربن کم کرے ۔ “Shortcut Solutions” لہٰذا انسانیت کو چاہیے کہ
ماحول دوست پالیسیز پر عمل کرے ۔ اور زمین کو مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ بنائے۔


