نواز شریف کچھ جلدی میں تھے، اکیلے ہی کمرے سے باہر
آئے، میرے کاندھے پرہاتھ رکھ کرسرگوشی میں بولے وہ
آرام کررہی ہیں جب بیدار ہوں توانہیں کہنا

تحریر: آغا خالد (سینئر صحافی)
آخری قسط
agha.khalid@gmail.com
یہ گیت تو وہ اکثر گاتی تھیں اس لیے یاد رہا ورنہ ہر ملاقات میں رات کے زیادہ پہرتوایک دوسرے کو گیت سناتے گرتے تھے اور نواز شریف کے اس ذوق کو دیکھ کر سبھی عملہ متفق تھا کہ وہ موسیقی کے رسیا ہیں شاید ان کے اسی شوق نے آتش قیس بھڑکائی اور بات یہاں تک جاپہنچی۔
میں ایسے میں اپنے کمرے کی صحن میں کھلنے والی کھڑکی کھول دیتا اوربسترپرلیٹ کر تصور میں ان کی گائکی سے محظوظ ہوتا رہتا اس روزادائے دل فریبی پر فریفتہ وزیراعلی نے دل ربا محبوب، خوش ادا، دلکش تکلم، سریلی کوئل، خوش ابرو، خوش اطوار، مہذب، باوضع، اقبال مند، خوش اختلاط اورسُروں کی ملکہ پرواری جاتے ہوے خود بھی متعدد پرانی فلموں کے گیت گن گنائے جس سے مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہواکہ وہ اپنی محبت کی طرح خوش گلو بھی ہیں ادائے محبوبیت میں کھوئے جوڑے کو شب کے اندھیرے کے چھٹنے کی خبر بھی نہ ہوئی، صبح کاذب کی سحر انگیزی نے انگڑائی بھری تو وہ دونوں سٹ پٹاکرتیزی سے کمرے کی طرف چلے گئے۔
مگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہی خادم نے میرے دروازے پر پھر دستک دے کربتایا کہ، مہمان روانہ ہوا چاہتے ہیں ابھی ذرا دیرپہلے ہی میری آنکھ لگی تھی مگر اطلاع ایسی تھی کہ میں اچھل کرغسل خانہ میں گھس گیا اوراگلے چند منٹ میں تیار ہوکر پروٹو کول کی گاڑیاں لگوا ہی رہا تھا کہ نواز شریف آگئے۔
نواز شریف کچھ جلدی میں تھے لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نواز شریف اکیلے ہی کمرے سے باہر آئے میں نے اُن کے قریب آنے پر سلام کیا تو وہ میرے کاندھے پرہاتھ رکھ کرسرگوشی میں بولے۔۔۔۔۔۔
وہ آرام کررہی ہیں جب بیدار ہوں توانہیں کہنا، اہم کال آگئی تھی اس لیے صاحب کو مجبورنا جانا پڑا، وہ بہت معذرت کررہے تھے۔ میں طیارہ واپس بھیج دونگا انہیں صبح ناشتہ واشتہ کرواکررخصت کرنا۔
وزیراعلی کو رخصت کرکے میں دوبارہ اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ خادم نے پھردروازہ بجا دیا اوربولا، سر بیگم صاحبہ اٹھ گئی ہیں اوروہ بہت غصہ میں ہیں اورآپ کو بلارہی ہیں۔
میں تھکن سے چوراورکچی نیند میں تھا میں نے کہا یارتم لوگ انہیں ناشتہ کرواؤمیں آتا ہوں۔ یہ کہہ کرمیں پھر سوگیا۔ مادام نے ناشتہ سے توانکار کردیا مگر کچھ دیرانتظارکے بعد وہ پھر کمرے سے نکلیں اورغصے سے دھاڑتے ہوئے بولیں، بلاؤاس ۔۔۔۔۔۔ کو میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتی مجھے ابھی روانہ ہونا ہے۔
خادم نے ڈرتے ڈرتے پھرمجھے اٹھایا وہ بہت پریشان لگ رہاتھا اوربتایا کہ مادام بہت غصہ میں ہیں پھروہ ہاتھ جوڑ کر بولا، سر جی تسی چلو کتھے نواں رپھڑا نہ پے جئے (آپ چلیں کہیں نیا کٹا نہ کھل جائے)۔
میری نیند سے بوجھل آنکھیں کھلنے کو تیار نہ تھیں میں پھر بھی اٹھ کر منہ پر پانی کا چھپکا مارکرمادام کے سامنے پیش ہوگیا ان کی حالت دیکھی تو نیند تو غائب ہو ہی گئی تشویش میں مبتلا ہوگیا آج پہلی باروہ کچھ مدہوش لگیں، حسن تو ان کا قدرتی تھا سو اس کا کچھ نہ بگڑا مگر وہ تیاری کے بغیراورادھورے کپڑوں کے ساتھ، میں نے پہلی بارانہیں اس حالت میں دیکھا تومیں الجھ کررہ گیا۔
وہ میری بد حواسی کو بھانپتے ہوئے انگریزی میں شٹ اپ کال دے کر نواز شریف پر برس پڑیں اور پھر اپنے جاہ و جلال کا رخ میری طرف موڑتے ہوئے چیخ کربولیں، جب وہ جارہے تھے تو مجھے کیوں نہیں جگایا، مجھے ان کے اس رویہ کی ہرگز توقع نہ تھی۔
ایک سال سے ان کی آمد جامد تھی مگر ان کا اخلاق اور رویہ مثالی تھا جس کی وجہ سے ہمارا پورا عملہ ان کا گرویدہ تھا بہر صورت میری یہ اوقات تو نہ تھی کہ ان کا منہ سونگھ کرآج کے آگ برساتے ان کے موڈ کا اندازہ لگاتا مگراتنا مجھے اس نوکری میں یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ بڑے اوران سے جڑے لوگ ہم جیسے چھوٹے طبقہ کے ملازمین کو انسان نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ہماری اوقات مصنوعی کھلونے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے وہ میرے سامنے قابل اعتراض حالت میں کھڑی غصہ سے دھاڑ رہی تھیں اور رات کے طویل انتظار کے بعد صبح محبوب سے خالی بستر دیکھ کران کا آگ بگولا ہونا تو بنتا ہی تھا۔۔۔۔

میں نے بڑی عاجزی سے ان سے کہا، آپ تیار ہوکر ناشتہ کریں اتنے میں طیارہ وزیراعلی کو چھوڑ کرآجائے گا پھرآپ چلی جائیے گا۔ وہ بضد تھیں کہ وہ کار سے ہی لاہورجائیں گی جبکہ ان دنوں موٹروے بھی نہیں بنا تھا اور قومی شاہراہ کی حالت بھی کوئی زیادہ اچھی نہ تھی اس لیے میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ، مادام میں یہ رسک نہیں لے سکتا آپ کو انتظار کرنا ہوگا۔
وہ غصہ سے گھورتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں اور خادم کے پوچھنے پرناشتہ سے بھی انکارکردیا، ظہیر بھائی کی آپ بیتی اتنی دلچسپ اورحیران کن تھی کہ ہمیں سفر کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم راولپنڈی پہنچ گئے جہاں ہم نے رکشے والے کی مدد سے ایک مناسب سا ہوٹل تلاش کیا اوراس میں کمرہ لیا سامان رکھا اور پہلے بھوک کا بندو بست کرنے ہوٹل کی دوسری منزل سے اترکرسڑک پرآگئے جہاں لائن سے کھانے کے ہوٹل تھے اور سب ہی گاہکوں سے بھرے پڑے تھے۔
پنڈی کی مشہور دیسی مرغ کی کڑاہی کھاکر واپس ہوٹل پہنچے اور چودھری شجاعت کے گھر پر لینڈ لائن فون پر رابطہ کیا جہاں سے ان کے سیکریٹری یا آپریٹر نے چودھری صاحب سے پوچھ کر ہمیں اگلے روز صبح 10 بجے کا وقت دیا یوں ہمارے پاس کافی ٹائم تھا کیونکہ ابھی شب کے 8 بجے تھے پوری رات پڑی تھی۔
ایک طرف سفر کی تھکاوٹ نے ہمیں نڈھال کیا ہوا تھا تو دوسری طرف ظہیر بھائی کی سردو گرم نامکمل آپ بیتی کے سحر نے جکڑرکھا تھا، اور آگے ان کا کیس لڑنے کے لیے ضروری تھاکہ بھائی کی برطرفی کے پس منظر سے مکمل آگہی ہو جس پر مینے بستر پر دراز ہوتے ہوے ان کی یادوں کے تار چھیڑتے ہوے کہا، ہاں تو ظہیر بھائی آپ بتارہے تھے کہ خوش گلو نازنین غصہ سے کمرے میں چلی گئیں اور ناشتہ سے بھی انکار کردیا۔
ظہیر بھائی تھکاوٹ اورنیند سے بوجھل آنکھیں ملتے ہوے اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی یاد داشتوں کو جمع کرتے ہوے کہانی کی ٹوٹی ڈور جوڑتے ہوئے گویا ہوئے، کچھ دیربعد ایرپورٹ سے طیارے کی آمد کی کال موصول ہوگئی تو ہم نے انہیں بصد احترام رخصت کردیا وہ بھی اس وقت تک پوری طرح تیار ہوچکی تھیں۔
دوسرے روز صبح میں آفس پہنچا ہی تھا کہ مجھے معطلی کے احکامات موصول ہوگئے۔ میں بہاول پور جاکر ڈی جی سے ملا اوران سے اس روز کا ماجرا سناکر ان سے معطلی کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر بولے یار یہ نوکری کاحصہ ہوتاہے تم ایک اچھے اور فرض شناس افسرہو، پریشاں نہ ہو۔
خاتون نے چیف صاحب کو الٹی سیدھی لگائی ہوگی اس لیے انہوں نے بھی اسے خوش کرنے کے لیے معطلی کا کہہ دیا۔ ان کی مصروفیات میں کل انہیں یاد بھی نہیں رہے گا اس لیے ہفتہ دس دن بعد تمہیں بحال کردیں گے پھر وہ کچھ سوچتے ہوے بولے، ابھی تم ایسا کرو ایک ہفتہ کی چھٹی کے ساتھ پچھلی تاریخوں میں ایک تنخواہ انعام میں تمہیں دیتاہوں تم بچوں کو مری شری گھما آؤ۔
واپس آؤ گے تو تمہیں بحال کردیں گے، میرے استفسار پر کہ تم 17 گریڈ کے اور ڈی جی 20 گریڈ کا اور وہ بھی نواز شریف سے براہ راست تعلق دار پھر وہ تم پراتنا مہربان کیوں؟

ظہیر بولے، ہیں تو وہ بھی انسان ہی اور اللے تللے ان کے بھی نواز شریف والے ہی تھے وہ کونسا مسجد کے پیش امام تھے بلکہ وہ تو اکثر دیگر دل بستگیوں کے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آکر بھی ٹہرتے تھے اور بچوں سے ریگستان میں ہرن اور چرند پرند کا شکار بھی کرواتے تھے جوکہ غیر قانونی ہوتا تھا۔
ڈی جی اپنی بیگم سے بھی بہت ڈرتے تھے اس لیے جب بھی آتے مجھے بلاکر خاص طور پر ہدایت دیتے کہ اپنے عملے کو سختی سے کہہ دیں کہ وہ بیگم صاحبہ سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں نہ ہی انہیں میری یہاں کی مصروفیات کا پتہ چلنے دیں، پھر یہ بھی تھا کہ میری کبھی بھی کسی مہمان نے شکایت نہ کی تھی اس میں ان کی بھی عزت تھی کہ ایسی حساس جگہ آپ نے ایک ذمہ دار افسر کی تقرری کی ہوئی ہے تو ان کا مہرباں ہونا تو بنتا ہی تھا۔
میں ایک ہفتہ بعد مری سے واپس آیا تو دفتر کے حالات ہی بدلے ہوئے تھے۔ کوئی افسر مجھ سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہ تھا اور ہر کوئی پہلو بچاکر نکلنے کی کوشش کرتا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی اسی دوران مجھے پیغام ملا کہ میں ایڈ من برانچ میں رابطہ کروں۔
میں وہاں گیا تو ایڈ من افسر جوکہ میرا پرانا اور بے تکلف دوست تھا نے مجھے شوکاز تھماتے ہوے بے رخی سے میرے سامنے دو سفید کاغذ اور قلم رکھ کر بولا اس پراپنا تفصیلی موقف لکھ دو مینے شوکاز پڑھا تو پتہ چلا وزیر اعلی کے حکم پر انکوائری بورڈ میرے خلاف بٹھایا گیا ہے جو ایک ہفتہ سے مجھ سے رابطہ کی کوشش کررہاہے مگر میں بغیر اطلاع یا چھٹی کے غائب ہوں۔
میں نے شوکاز پڑھ کر اپنے دوست افسر سے کہا کہ، یار یہ تو سراسر زیادتی ہے میں تو ایک ہفتہ کی باقاعدہ چھٹی لے کر گیا تھا اور ڈی جی صاحب نے ایک ماہ کی تنخواہ بھی مجھے بطور انعام دلوائی تھی۔ وہ روکھے لہجہ میں آنکھیں چراتے ہوئے بولا تو اس میں لکھ دیں نہ سب کچھ جو آپ کو یاد ہے اور اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلاگیا۔
میں نے شوکاز پکڑا اور ڈی جی سے ملنے پہنچ گیا۔ پہلے تو چپڑاسی مجھے روکتے ہوئے بولا، صاحب آپ پی اے سے مل لیں جبکہ اس سے پہلے کبھی مجھے روکا نہیں گیا تھا۔ میں ان کے پاس گیا تو وہ بھی بے رخی سے بولا ڈی جی میٹنگ میں ہیں اور آج کا شڈیول بہت ٹائٹ ہے ملاقات نہیں ہوسکتی۔
میرے بار بار اصرار پر وہ دھیرے سے بولا،او نئیں ملنا چاندے (وہ نہیں ملنا چاہتے) اب مجھے معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا ورنہ میں تو اس خیال میں مگن تھا کہ ڈی جی معاملات کو سنبھال لیں گے وہ میرے مہرباں افسر ہیں جس کھونٹے پر ناز تھا وہ کھونٹہ ہی دغاباز نکلا اب میں مضمحل سا واپس ایڈ من میں پہنچا جہاں ایڈمن افسر سمیت بہت سی طنزیہ نظریں میرا تمسخر اڑارہی تھیں۔
میں نے سب کو نظر انداز کرتے ہوے اپنا تفصیلی جواب تحریر کیا کیونکہ میں نے ایل ایل بی کیا ہواتھا چہ جائکہ میری پریکٹس نہ تھی مگر مجھے سرکاری ملازمت کے قواعد اور حقوق اچھی طرح ازبر تھے اس لیے میرا جواب خاصہ مدلل تھا جس کے بعد قانونی طور پر مزید کاروائی ممکن نہ تھی مگر یہاں تو معاملہ ہی مزاج یار کاتھا سو قانون نے آنکھیں بند کرلیں اور مجھے ملازمت سے برخواست کردیا گیا۔
وہ ہوٹل کے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر سونے کی ناکام کوشش کرتے ہوے گویا ہوئے، آگے کی کہانی تو تمہیں معلوم ہی ہے، میں بھی لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا مگر ان کی پر تاثیر کہانی کے آخری موڑ نے مجھے الجھا کر رکھ دیا تھا اور میں حیران ہورہا تھا کہ میرے پسندیدہ لیڈر کا انسانی کمزوریوں سے قطع نظر یہ روپ۔۔ ایک چھوٹے سے ملازم کی نوکری ہی ختم کردی اوراس کے نتائج اس ملازم کا خاندان کیسے بھگت رہاہے یہ ان بڑے لوگوں کو کیا معلوم۔۔۔
صبح میری وقفہ وقفہ سے آنکھ کھلتی رہی اور میں دیکھ رہاتھا کہ ظہیر بھائی کبھی نماز کبھی لمبی تسبیح اور کبھی طویل دعاء میں مصروف تھے۔ ٹھیک 8 بجے انہوں مجھے بھی جگادیا اوراس طرح ہم ناشتہ سے فارغ ہوکر چودھری شجاعت کے دردولت پر حاضر ہوگئے۔
لمبے سے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں چودھری صاحب دو مہمانوں سے محو گفتگو تھے، ہم داخل ہوئے تو چودھری صاحب نے اپنے ملازم کو ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں دروازے کے ساتھ ہی پڑے صوفوں پر بیٹھانے کو کہا تو ہم وہیں بیٹھ گئے۔
اسلام آباد جیسے خود پسندی کے ماحول میں بھی چودھری شجاعت کی مہمانداری دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ بغیر بولے بغیر پوچھے ہمارے لیے پر تکلف ناشتہ بمع چائے کے لایا گیا تو ہم نے معذرت کرتے ہوئے صرف چائے پر اکتفا کیا۔
چودھری صاحب جو مہمانوں کی گفتگو سے بوریت ظاہر کرتے ہوئے بار بار ہماری جانب متوجہ ہورہے تھے نے ہمیں مخاطب کرکے پنجابی میں بولے، صحافی صاحب بڑی دوروں آئے یو ناشتہ تے کرونا تھواڈے واسطے منڈا لے کے آیا وے۔۔۔۔۔
ہم نے شکریہ کے ساتھ بتایا کہ ہم رات سے ہوٹل میں ٹھرے ہوے ہیں اور ناشتہ کرکے آئے ہیں، تو چودھری صاحب نے کہا، اچھا ناشتہ نہیں کرنا تو پھرادھر ہی آجاؤ، ہم ان سے معانقہ کرکے ان کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ ان کا ملازم چائے کے دوکپ ٹرے میں رکھ کر ہمارے سامنے رکھ گیا۔
چودھری صاحب نے مجھے مخاطب کرکے اپنے دونوں مہمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا، ان کو جانتے ہو؟ مین نے نفی میں سر ہلایا تو بولے، یہ اسلام آباد کے وڈے صحافی ہیں۔ پھر میرا ان سے تعارف کروایا تو وہ دونوں چونک گئے بعد ازاں ان کا تفصیلی تعارف ہوا تو چونکنے کی وجہ سمجھ آگئی۔
پتہ چلا ایک نوائے وقت اور دوسرے کا تعلق روزنامہ مشرق سے ہے اور وہ مشرق یونین کے بھی بڑے لیڈر ہیں۔ وہ دونوں کافی دیر سے چودھری صاحب سے مالی مطالبات کررہے تھے۔ چودھری صاحب نے اپنی چیک بک منگواکرانہیں چیک کاٹ دیے مگر وہ مزید رقم پر بضد تھے جبکہ چودھری صاحب پھیکی سی مسکراہٹ سے انہیں ٹال رہے تھے۔
ہمارے تعارف سے چودھری صاحب کی گلو خلاصی ہوئی اور وہ دونوں عجلت میں رخصت ہوگئے، چودھری صاحب کو مینے مختصر ظہیر بھائی کے ساتھ پیش آئے معاملہ سے آگاہ کیا اوران کی بحالی کی درخواست کی۔اس گفتگو کے دوران مغنیہ کے ذکر پر چودھری صاحب کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی جس سے اندازہ ہواکہ وہ پہلے سے اس عشقیہ سلسلہ سے آگاہ ہیں اور انہوں نے اسی حوالے سے ظہیر بھائی سے کئی سوال بھی کیے۔
اس دوران کوئی اور صاحب جن کا شاید چودھری صاحب کے خاندان یا پارٹی سے گہرا تعلق تھا بھی گفتگو میں شامل ہوگئے، چودھری صاحب نے ان سے بھی میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ بہت دور سے آئے ہیں ان کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور ان صاحب سے مشورہ مانگا کہ کس سے بات کی جائے ان کے مشورہ پر چودھری شجاعت نے شہباز شریف کو فون کیا مگر ان سے بات نہ ہوسکی تو انہوں نے اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی ہاؤس کے انچارج اقبال ڈار کو فون کیا اور کہا کہ میں انہیں لاہور بھیج رہاہوں تم انہیں میرے حوالے سے شہباز شریف سے ملوادینا۔
ڈار میرے پرانے اور سینئیر دوست ہیں وہ میرا نام سن کر حیران ہوئے اور چودھری صاحب سے مجھ سے پرانے تعلق کے بارے میں بتایا تو چودھری صاحب جو ویسے ہی بہت ہمدردی کرہے تھے نے اطمینان کا سانس لیا اور ہمیں اپنا کارڈ شہباز شریف کے نام لکھ کر دیا۔
ہم اسی روز شام 6 بجے تک لاہور پہنچ گئے وہاں ہوٹل میں کمرہ لیا جیسے تیسے رات گزاری اور صبح اقبال ڈار کو فون کیا وہ مسلم لیگ ہائوس میں بیٹھا تھا ہمیں وہیں بلالیا۔ ڈار نے ظہیر بھائی کی بپتا سنی تو پریشان ہوگیا اور بولا یار آغا آپ کا کام بہت مشکل ہے میں نواز شریف اور شہباز شریف کو بہت سے پارٹی لیڈروں سے زیادہ جانتا ہوں آپ اگر کہتے ہیں تو میں کوشش کرکے شہباز صاحب سے ملوا دیتا ہوں مگر اُمید کم ہے۔۔۔
ڈار مجھ سے اتنی ہمدردی اس لیے کررہے تھے کہ وہ تھے تو گجرانوالہ کے پنجابی مگر ان کے والد صاحب سندھ کے محکمہ آب پاشی میں ملازم تھے وہ ریٹائر ہوکر واپس گجرا نوالہ چلے گئے مگر اقبال ڈار سکھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ اس دوران مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی رہنما بن چکے تھے۔ان کا ملک بھر کی طلبہ سیاست میں ڈنکا بج رہا تھا اس لیے وہ والد کے ساتھ واپس جانے کی بجائے سکھر کے ہوکررہ گئے یوں بھی طلبہ سیاست کا مزا ہیروئن کے نشہ سے زیادہ خطرناک ہوتاہے جبکہ میں بھی طلبہ سیاست میں جمعیت طلبہ سے وابستہ تھا اور سکھر ڈویزن کا صدر بھی، مگر ہم ڈار کے مقابلہ میں پدی تھے۔
ڈار ملکی سطح کا معروف طالب علم رہنما تھا اورعمرمیں بھی ہم سے کافی بڑا تھا کمال یہ ہے کہ آج بھی وہ عمر چور ڈار ہم سے چھوٹاہی لگتاہے، ادھر اس دور میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا عروج تھا۔ تمام مذہبی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی اور مسلم لیگ دائیں دھڑے کی جماعتیں کہلاتی تھیں جبکہ پپلز پارٹی اور اے این پی وغیرہ بائیں بازو کی جماعتیں سمجھی جاتی تھیں۔
ڈار سے یہ تعلق میرے صحافت میں آنے کے بعد بھی قائم رہا اور اسی حوالے سے وہ ہمارے کام کے لیے فکر مند تھا مگر آگے سے اسے کسی نتیجہ کی امید نہ تھی۔ پھر طے یہ ہواکہ اقبال ڈار رابطہ کرکے شہباز شریف کو چودھری شجاعت کا پیغام دیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ ہم سے ملنے کے لیے تیار ہوجائیں بصورت دیگر وہ کم از کم ظہیر بھائی کی بحالی کے احکامات جاری کریں مگر 2 روز بعد ڈار بھی مایوس ہوگئے اور شرمندگی کے سبب ملنے کی بجائے فون پر ہی معذرت کرلی۔
نواز شریف اور پنجاب کی وزارت اعلی کا حسین دور
ان کی مختصر کال اور روکھی گفتگو میں کافی پیغام پوشیدہ تھا جسے لے کر ہم واپس بہاولپورروانہ ہوگئے۔ راستے بھر ہم میں کوئی بات نہ ہوئی ہم دونوں بھائی آپس میں نظریں چار کرنے سے بھی کترارہے تھے۔ ظہیر بھائی سنجیدہ مزاج کے امید کو ہی منزل بناکرخوش رہنے والے سادہ دل لوگوں میں سے تھے جن کی چھوٹی چھوٹی تمنائیں ہوتی ہیں اور وہ ہربات میں مسرت کا کوئی پہلو ڈھونڈ لاتے ہیں مگر جونہی گھر میں داخل ہوئے تو گھر کے مالی بحران میں گھرے ماحول نے ظہیر بھائی کو بھی اداس کردیا۔
ان کے 2 بچوں کو فیس کی عدم ادائیگی پر اسکول سے نوٹس مل چکا تھا چند گھنٹوں میں کریانہ والا، دودھ والا، دھوبی نے دروازہ پر دستک دی اور گھر کے راشن وغیرہ کے معاملات نے مجھے بھی ایسا جھن جوڑا کہ بے بسی سے اپنا بیگ اٹھاکر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔
میرا دل پھٹا جارہا تھا اور رہ رہ کر نواز لیگ اور ان کی حکومت پر غصہ آرہاتھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بھابی رافعہ کے بھائی مجھے ڈھونڈتے اسٹیشن پہنچ گئے مگر پہلی بار ان کے شدید اصرار کو بھی رد کرکے میں ٹرین میں سوار ہوکر سکھر پہنچ گیا۔
کچھ روز بعد اطلاع ملی کہ ظہیر بھائی نے عدالت میں کیس دائر کردیاہے اور نواز شریف سمیت تمام اعلی حکام کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ ظہیر بھائی کی برطرفی کی اصل وجوہ اپیل کے متن میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اس پرحکومت میں کھلبلی مچ گئی اور دو چار پیشیوں کے بعد ہی بدنامی یا کسی اسکینڈل سے بچنے کی خاطر نواز حکومت نے ظہیر بھائی کو بحال کردیا۔
ظہیر بھائی نے پھر ڈٹ کر نوکری کی اور معمول کے طریقہ کار سے ریٹائر ہوئے بعد ازاں بھرپور زندگی گزار کر 10 اگست 2021 کو دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔
اس درد ناک آپ بیتی کا حاصل یہ ہے کہ، صاحبان اقتدار اور دولت مندوں سے بس اس قدر عرض ہے کہ جب بھی عشق کرو تو خدارا اتنا خیال رکھو کہ کوئی کمزور تمھاری محبت کے بوجھ تلے نہ دب جائے؟
1 تبصرہ