September 19, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
ایران سفارتکاری اور قانونی دفاع کی حمایت کیوں کررہا ہے

ایران سفارتکاری اور قانونی دفاع کی حمایت کیوں کررہا ہے

ایران اپنی آزادی، ملکی سالمیت اور اپنے شہریوں کا دفاع

کرنے میں کبھی بھی دشمن عناصر اور بدنیتوں کے مقابلے

میں لچک نہیں دکھائے گا۔

ویب نیوز رپورٹ: روبینہ یاسمین

کراچی: پاکستان میں تعینات حسن نوریان۔ قونصل جنرل آف ایران نےگزشتہ دنوں میڈیا بریفنگ میں ایران کی جانب سے بین الاقوامی سفارتکاری اور قانونی دفاع کے حق کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئےکہا کہ

دنیا کی معتبر ترین تاریخی کتب میں بیان ہوا ہے کہ ہخامنشی دور حکومت میں ایران کا بادشاہ سائرس اعظم وہ پہلا شخص تھا جس نے انسانی حقوق کا منشور ترتیب دیا۔ اسی کا ترتیب دیا ہوا منشور آج کی دنیا میں انسانی حقوق کی بنیادیں قرار پایا۔ 

ایران نے ایک صلح پسند ملک کی حیثیت سے پچھلی دو صدیوں میں کسی جنگ یا جارحیت کا آغاز نہیں کیا لیکن اپنی آزادی، ملکی سالمیت اور اپنے شہریوں کا دفاع کرنے میں کبھی بھی دشمن عناصر اور بدنیتوں کے مقابلے میں کوئی لچک بھی نہیں دکھائے گا۔

بیشک ملک کی اندرونی سطح پر، اردگرد کے ماحول اور اسی طرح بین الاقوامی سطح  پرامن و آشتی اور استحکام  قائم رکھنا حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔

اگرملک میں عدم تحفظ و عدم استحکام پر قابو نہ پایا جائے یہ بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے دوسرے بحرانوں کو جنم دیتے ہیں جس کے نتیجے میں صورتحال بے قابو ہوجاتی ہے اور نہ صرف پورے خطے بلکہ عالمی امن کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

اسرائیل نامی غاصب و نسل پرستانہ ریاست کے خلاف ایران کی انتقامی کاروائی اقوام متحدہ  کے منشور کے آرٹیکل نمبر51 کے مطابق قانونی دفاع شمار ہوتی ہے۔

ایران نے متعدد بار واضح کیا تھا کہ سرزمین ِایران پر فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور فلسطینیوں کے لیڈر اسماعیل ہنیہ جو دوسرے متعدد ممالک کے سربراہان کی طرح ایک سرکاری تقریب میں شرکت کی غرض سے ایران تشریف لائے تھے، دہشت گرد ریاست اسرائیل کے ہاتھوں ان کی شہادت در حقیقت ایران کی ملکی سالمیت  اور خودمختاری  پر حملہ کرنے کے مترادف ہے اور اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

جمہوری اسلامی ایران ایک ایسا ملک ہے جو اقوام متحدہ  کے منشور اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط کا مکمل پابند ہے اور خطے میں امن کے قیام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران نے اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے کے فورا بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اورمطالبہ کیا کہ کہ سلامتی کونسل ، اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس متعلق کوئی اقدام کرے۔

اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو نشانہ بنائے جانے پر بھی ایران نے بالکل ایسا ہی دفاعی رویہ اختیار کی تھی۔

بدقسمتی سے ان دونوں موقعوں پر سلامتی کونسل ، امریکہ اور اسرائیل کے دوسرے اتحادیوں کی طرف سے دباو کا شکار رہتے ہوئے عالمی امن کو قائم رکھنے کے حوالے سے اپنی قانونی اور فطری ذمہ داریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

حتی کہ اس عالمی ادارے کی جانب سے صیہونی ریاست کے اس دہشت گردانہ اقدام کی مذمت پر مشتمل ایک سادہ سا بیان بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔

ایران کی اعلی سطح کی قیادت کئی مرتبہ دو طرفہ، کثیر الجہتی مذاکرات، بین الاقوامی حلقوں اوراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ بیٹھک میں اِس بات کااظہارکرچکی ہے کہ ایران، اسرائیل کی دہشت گردانہ و مجرمانہ کاروائیوں کی روک تھام کا عزم رکھتا ہے۔

لیکن گذشتہ چند مہینوں سے ہمارے ملک ایران کی جانب سے اسرائیل کو ان مجرمانہ کاروائیوں کی سزا دینے میں جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جارہا تھا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خطے میں موجود کشیدگی کو کم کیا جائے اوراس پر قابو پایا جائے۔

اس صبر و تحمل کے نتیجے میں اسرائیل نامی جارحیت پسند و مجرم ریاست کی جانب سے غزہ، لبنان اور شام میں مذموم و غیرانسانی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسرائیل کی اس بربریت نے پورے خطے کو ایک ایسی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جسے قابو کرنا  ناممکن ہے۔

اسرائیل نے ایران کی اس تحمل مزاجی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اور دہشت گردانہ و مذموم عسکری کاروائیوں کا بے لگام سلسلہ شروع کردیا جس میں لبنا ن میں عام شہریوں کے خلاف پیجر ڈیوائیسز کو استعمال کرنا بھی شامل ہے۔

اس مذموم وغیرانسانی پیجر حملے کے نتیجے میں تین ہزار سے زائد لبنانی شہری زخمی اور درجنوں ایسے لوگ شہید  ہوئے جن کا جنگ میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

بیشک یہ ایک دل دہلا دینے والا المیہ ہے۔ یہ لوگ مختلف طبی مراکز اور ہسپتالوں میں اپنے لبنانی ہم وطنوں کی خدمت اور دیکھ بھال میں مصروف تھے اور اسرائیلی حکومت کی دہشت گردی اور منظم مجرمانہ اقدامات کا شکار بن گئے۔

اس  وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں بیروت میں جمہوری اسلامی ایران کے سفیر بھی شامل تھے جو ایک پیجر دھماکے میں زخمی ہوئے۔

بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اسرائیل کے ان جرائم کے مقابلے میں غیرفعال رویہ دیکھ کر اسرائیلی حکومت کو مزید شہ ملی اور اس نے پوری ڈھٹائی و بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کی قائم کردہ تمام حدود و قیود کو روندتے ہوئے اپنی بے مثال مجرمانہ کاروائیاں جاری رکھیں۔

جبکہ اسرائیل کے یہ جرائم  نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، جارحیت پسندی  اور خانہ جنگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ 

امریکہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیرقانونی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال اور لبنان کے عام شہریوں کے خلاف رہایشی علاقوں میں Bunker-Busterبموں کا استعمال  بھی اسرائیل کے  جنگی جرائم اور نسل کشی کی ایک اور مثال ہے ۔ 

اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں  سیکڑوں بے گناہ لبنانی شہری  انتہائی وحشیانہ طریقے سے شہید ہوئے اور ہزاروں افراد زخمی ہوگئے۔

جنوبی بیروت کے مضافات میں اسرائیلی فوج کی جانب سے رہایشی آبادیوں اورعام شہریوں کے خلاف ایسے مہلک اور ممنوع ہتھیاروں  کے استعمال کے نتیجے میں لبنان کے ہر دلعزیز رہنما  اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ شہید اور ان کے ساتھ حزب اللہ کے متعدد افراد زخمی ہوئے۔

اسرائیل سالہا سال سے قرارداد نمبر ۱۷۰۲ کی مخالفت کرتے ہوئے لبنان کی فضائی و زمینی حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

ایسی صورتحال میں حزب اللہ اور مزاحمتی تحریکوں کا ہتھیار اٹھا لینا صیہونی جارحیت اور قبضے کا فطری نتیجہ ہے اور جب تک یہ خطرہ باقی رہے گا قانونی مزاحمت کا راستہ بھی جاری و ساری رہے گا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لبنانی سرزمین کا ایک حصہ تاحال صیہونی ریاست کے قبضے میں ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی بیرونی قبضے کے مقابلے میں ہر قسم کی مزاحمت من جملہ ہتھیار اٹھا لینا ، ایک فطری حق ہے۔

لبنا ن کے خلاف اسرائیلی جارحیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ حزب اللہ اور مزاحمتی گروپ کے پاس موجود ہتھیار اپنے ملک اور شہریوں کا دفاع کرنے کی غرض سے موجود ہیں۔

لبنان کے رہایشی علاقوں پر صیہونی ریاست کے فضائی حملے، غیرقانونی ہتھیاروں کا استعمال ، عام لوگوں کے خلاف کمیونیکشن آلات(پیجرز)  کا استعمال، لوگوں کے گھروں کو نشانہ بنانا اور امریکہ کی جانب سے Bunker-Busterبموں کا استعمال، اسرائیلی ریاست کے ظلم و بربریت کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اس جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت  اور اپنا دفاع کرنا لبنان کا فطری حق ہے۔

بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اس جنگ بھڑکانے والی ریاست کی جارحیت کے سامنے بند باندھنے اوراسے سزا دینے کے حوالے سے مناسب اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے سے قاصر ہے اس لیے کہ صیہونی ریاست کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

اس اسرائیلی جارحیت کا تسلسل  اوراسرائیل کی جانب سےانسانی حقوق سے متعلق اور دوسرےبین الاقوامی قوانین و ضوابط بالخصوص  ۱۹۴۹ کے جینیوا کنونشن اور ۱۹۶۱ کے ،وین کنونشن  کے مندرجات کی  دھجیاں اڑانا اگر اسی طرح جاری رہا  تو یقینا اسرائیلی ریاست عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بن جائے گی۔

اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ  غزہ اور لبنان میں جنگ و خونریزی  جاری رکھنے کی پاداش میں اسرائیل کے خلاف  کاروائی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے منشور کے ساتویں باب کے مندرجات کے مطابق اسرائیلی ریاست کے خلاف پابندیاں لگائے۔ 

ہم دوسرے ممالک سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے جاری عسکری دہشت گردی کی روک تھام اور خطے میں امن کے قیام کی راہ میں موثر اور تعمیری کردار ادا کریں۔

جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے کی گئی مسلح کاروائی ملکی خودمختاری کے دفاع کے فطری و قانونی حق کے تحت کی گئی اور میرے ملک کے خلاف اسرائیل کی مزید مذموم کاروائیوں کی روک تھام کے لیے یہ ضروری تھا۔ 

یہ کاروائی دو مہینے تک تحمل مزاجی سے کام لینے اور سلامتی کونسل کی جانب سے قابض اسرائیلی ریاست کے خلاف کوئی ردعمل ظاہرنہ ہونے کے بعد کی گئی ۔ بیشک یہ کاروائی اسرائیل کی مذموم کاروائیوں کے عین مطابق تھی۔

ایران کی اعلی سطح کی سیاسی و عسکری قیادت یہ اعلان بھی کر چکی ہے کہ ہم نے سارا حساب چُکتا کردیا ہے لیکن ہم اسرائیل کی جانب سے مزید کسی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

اگر اسرائیل نے دوبارہ ایسی غلطی کی اور ہماری ملکی سالمیت اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایران کے مفادات، اس کی سرزمین یا وہاں کے شہریوں  کے خلاف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا (جیسا کے پچھلے ہفتے ہی ایسا کچھ دیکھنے کو ملا تھا) تو اسے فورا سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور سبق سکھایا جائے گا۔

اس سے پہلے بھی ایران کی مسلح افواج کی جانب سے وعدہ صادق ۲ نامی آپریشن کے نتیجے میں اسرائیل کے عسکری، سیکیورٹی اورانٹیلی جنس مراکز کی تباہی کی خبریں ہر طرف گردش کررہی تھیں۔

میں ایک مرتبہ پھرعلاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے ایران کے عزم راسخ کو دہرانا چاہوں گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×