اگر عوام قبل از وقت حفاظتی تدابیر اختیار کریں، حکومت، پشتوں اور
نکاسیٔ آب کے نظام کو بہتر بنائے تو بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
ویب نیوز رپورٹ: روبینہ یاسمین
سندھ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جو جغرافیائی اعتبار سے ہمیشہ دریائے سندھ کے بہاؤ اور مون سون بارشوں کے براہِ راست اثرات میں رہا ہے ۔
ہر سال برسات کے موسم میں جب دریائے سندھ کے پانی کی سطح بلند ہوتی ہے تو نشیبی علاقے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں ۔
حالیہ برس 2025 میں بھی محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے سندھ کے کئی اضلاع میں سیلابی خطرے کی وارننگ جاری کی ہے ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شدید بارشوں، دریا میں طغیانی، اور نہروں کے شگافوں نے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔
سندھ میں سیلاب کب آتا ہے؟
زیادہ تر جون سے ستمبر کے دوران جب برسات کے ساتھ دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے ۔
سندھ میں سیلابی خطرہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دہائیوں سے موجود ہے۔ مگر اب موسمیاتی تبدیلی نے اسے مزید خطرناک بنا دیا ہے ۔
سندھ میں سیلابی خطرے کی وجوہات
جغرافیائی محلِ وقوع
صوبہ سندھ کا بیشتر حصہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے ۔ خاص طور پر سکھر، گھوٹکی، شکارپور، کشمور، دادو، لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ اور بدین جیسے اضلاع براہِ راست نشیبی زمینوں پر ہیں ۔
ان علاقوں میں معمولی سا بھی دریائی پانی کا دباؤ بڑھ جائے تو بستیاں زیرِ آب آ جاتی ہیں
مون سون بارشوں کی شدت
رواں سال مون سون بارشیں معمول سے 20 سے 30 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق صرف جولائی اور اگست میں سندھ کے بالائی علاقوں میں اوسط سے دگنی بارش ہوئی، جس کا براہِ راست اثر دریائے سندھ کے پانی کی سطح پر پڑا ۔
پشتوں اور بندوں کی کمزوری
سندھ کے مختلف اضلاع میں پشتے اور حفاظتی بند کئی دہائیوں پرانے ہیں ۔ بارشوں اور دریا کے دباؤ کے سبب ان میں شگاف پڑنا عام بات ہے ۔
سن 2010 کے تباہ کن سیلاب میں زیادہ نقصان اسی وجہ سے ہوا تھا کہ حفاظتی پشتے ٹوٹ گئے تھے ۔
نکاسیٔ آب کا ناقص نظام
کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ جیسے شہری اضلاع میں نکاسیٔ آب کا نظام انتہائی ناکارہ ہے ۔ بارش کا پانی گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک جمع رہتا ہے، جس سے شہری زندگی مفلوج ہو جاتی ہے ۔
حالیہ سیلابی خطرے کی موجودہ صورتحال (2025)
دریائے سندھ میں طغیانی
ستمبر سن 2025 کی ابتدائی رپورٹوں کے مطابق، دریائے سندھ میں گڈو بیراج اور سکھر بیراج پر پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے ۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق اگلے چند دنوں میں اگر بارشیں مزید ہوئیں تو دریائی پانی کئی دیہات کو ڈبو سکتا ہے ۔
متاثرہ اضلاع
اب تک سب سے زیادہ خطرہ شکارپور، کشمور، دادو، قمبر شہدادکوٹ اور بدین کو لاحق ہے ۔ ان اضلاع کے نشیبی علاقے زیرِ آب آنا شروع ہو چکے ہیں ۔
ریلیف کیمپوں کا قیام
حکومتِ سندھ اور (این ڈی ایم ای) نے مختلف اضلاع میں عارضی ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی گنجائش متاثرین کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف دادو میں 30 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہیں، جب کہ ریلیف کیمپ صرف 10 ہزار افراد کو سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔
سیلاب کے ممکنہ اثرات
انسانی جانوں پر اثرات
سیلاب سب سے پہلے انسانی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی خدشہ ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو جانی نقصان بڑھ سکتا ہے ۔
صحت کے مسائل
سیلابی پانی ہمیشہ آلودہ ہوتا ہے ۔ اس سے ہیضہ، ٹائیفائیڈ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں ۔
سن 2022 کے سیلاب کے بعد سندھ میں صرف تین ماہ کے دوران 2 لاکھ سے زائد افراد ہیضے اور ڈائریا کا شکار ہوئے تھے ۔
معیشت پر اثرات
سندھ کی معیشت زیادہ تر زراعت پر انحصار کرتی ہے ۔ کپاس، چاول، گنا اور سبزیوں کی کاشت زیادہ تر انہی اضلاع میں ہوتی ہے جو سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں ۔
معاشی ماہرین کے مطابق صرف ایک بڑے سیلاب سے سندھ کو کھربوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے ۔
تعلیم اور سماجی زندگی
سیلاب کی وجہ سے اسکول عمارتیں تباہ ہو جاتی ہیں یا ریلیف کیمپ بنا دی جاتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم کئی ماہ تک رکی رہتی ہے ۔
ماضی کے سیلابوں سے سبق
سن 1940 اور 1950 کی دہائیاں
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں سندھ شدید بارشوں اور دریائی طغیانی کی لپیٹ میں آیا ۔ اُس وقت نہ پشتوں کا نظام مضبوط تھا اور نہ ہی شہری آبادی کو منتقل کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ موجود تھا ۔
سن 1973 کا سیلاب
سن 1973 میں دریائے سندھ میں ایسا ریکارڈ توڑ سیلاب آیا جس نے سندھ بھر میں ہزاروں مکانات تباہ کیے اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پانی میں ڈوب گئی ۔
یہ وہ وقت تھا جب حکومت پاکستان نے پہلی بار بڑے پیمانے پر پشتوں کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ۔
سن 2010 کا سیلاب
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب 2010 میں آیا تھا، جس میں دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ صرف سندھ میں 1 کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
سن 2022 کا سیلاب
سن 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا تھا ۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں 70 فیصد دیہی علاقے پانی میں ڈوب گئے تھے۔ اس وقت بھی سب سے زیادہ بیماریاں سندھ میں ہی پھیلیں ۔

سیلابی خطرے سے بچنے کے لیے عوامی رہنمائی
سیلاب سے پہلے
ایمرجنسی بیگ تیار رکھیں ۔
شناختی کارڈ اور اہم کاغذات محفوظ جگہ پر رکھیں ۔
ریلیف کیمپوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں ۔
تین دن کی خشک خوراک اور راشن کا بندوبست کریں ۔
پانی صاف کرنے والی گولیاں، طبی سامان، فرسٹ ایڈ باکس ضروری دوائیں، سیٹی اور رسّی، چھوٹا ریڈیو، پاور بینک ، ٹارچ اور بیٹریاں علواہ ازیں صاف پانی ذخیرہ کریں ۔
بچوں کو سیلابی خطرات کے بارے میں آگاہ کریں ۔
جانوروں اور مال مویشی کے لیے اونچی جگہ پر بندوبست کریں ۔
سیلاب کے دوران
ریلیف کیمپوں یا اونچی جگہ پر منتقل ہو جائیں ۔
بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹ دیں ۔
سیلابی پانی میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں ۔
بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے دور رہیں۔ بغیر اجازت کشتی یا پانی میں داخل نہ ہوں ۔
بچوں اور بزرگوں کو سب سے پہلے محفوظ مقام پر منتقل کریں ۔
مچھردانی اور صاف پانی کا استعمال کریں ۔

سیلاب کے بعد
متاثرہ جگہ پر واپس آنے سے پہلے پانی کے اترنے کا انتظار کریں ۔
پینے کا صاف پانی استعمال کریں ۔
حکومت اور امدادی اداروں کی ہدایات پر عمل کریں۔
گھروں میں صفائی اور جراثیم کش ادویات استعمال کریں ۔
گندے پانی میں نہ جائیں، تاکہ بیماریاں نہ پھیلیں ۔
بچوں اور بزرگوں کی صحت پر خاص توجہ دیں ۔
یہ بھی پڑھیں
پی ڈی ایم اے سندھ کی ممکنہ سیلاب کے پیش نظر امدادی سرگرمیاں تیز
سندھ حکومت کا قابل تجدید توانائی کی طرف انقلابی سفر
عالمی تجربات سے سیکھنے کی ضرورت
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش ہر سال سیلاب کی زد میں آتا ہے مگر وہاں کمیونٹی وارننگ سسٹم اور فلوٹنگ اسکولز جیسے اقدامات نے بہت فرق ڈالا ہے۔
جاپان
جاپان میں زلزلے اور سونامی کے خطرات کے باوجود لوگوں کو پہلے سے ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اسکول کے بچے تک جانتے ہیں کہ ایمرجنسی میں کیا کرنا ہے۔
سندھ کے لیے سبق
سندھ میں بھی اگر کمیونٹی ٹریننگ، وقت سے پہلے وارننگ سسٹم اور مضبوط پشتے بنائے جائیں تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔
نتیجہ
سندھ میں حالیہ سیلابی خطرہ محض قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی کمزوریوں اور تیاری کی کمی کا بھی نتیجہ ہے۔
اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیں تو بڑے جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔


