ہر روز رات کو خواب میں دودھ کی بوتل کی تلاش جنگل میں کرنی پڑ تی ہے۔
تحریر: روبینہ یاسمین

عمرچار سال قد ڈھائی فٹ، رنگ گندمی اور ابھی بولنے والے الفاظ کا ذخیرہ زبان پر رواں نہیں ہوپاتا، اس عمر میں بچے کو خواب میں سوتے چاگتے بس ایک ہی چیز نظر آتی ہے اور وہ ہے اُس کی دودھ کی بوتل۔۔۔
اس بچی کوہر روز رات کو خواب میں دودھ کی بوتل کی کھوج جنگل میں کرنی پڑ تی
جہاں ڈھیر سارے کالے لمبے سانپ، اندھیرے پیڑ کی اوٹھ میں چمکتی خوفناک آنکھیں مگر کس کی ؟

دودھ کی بوتل اندھیری رات میں اسے اِدھر اُدھر بھٹکاتی رہتی۔ جنگل کی اندھیری رات کے کالے سائے اس بچی کے پیچھےہیں اور معصوم بچی کی ساری توجہ اُس دودھ کی بوتل پر ہے جس کے لئے وہ یہاں موجود یے۔
اچانک اسے دودھ کی بوتل نظر آئی، بچی اس بوتل کی جانب لپکی ہی تھی کہ اس کی آنکھ کھل گئی لیکن کمرہ بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا اور اسکی دودھ کی بوتل سامنے رکھے ٹی وی کے اوپر ہے۔
بچی انتھک کوششوں کے بعد بوتل حاصل کر تو لیتی ہے لیکن یہ دودھ کی بوتل تو خالی ہے۔
بچی خالی بوتل ہاتھ میں تھامے روتی ہے تو ذرا فاصلے سے سوئی اس کی ماں بچی کے رونے کی آواز سے اُٹھ جاتی ہے ، ماں سمجھی بچی ڈر گئی ہے لیکن اس معصوم بچی نے ماں سے کہا کہ
امّی بھوک لگی ہے، میری بوتل خالی ہے، دودھ چاہیئے۔۔۔

عمر سات سال, نام زرمین، اب اس عمر میں ہے کہ اسکول جاسکے ، لیکن دو سال پہلے اس کی زندگی میں کیا کچھ ہوا؟ وہ بھی بیان کرنا ضروری ہے۔
خواب کی دنیا سے اب حقیقت کی دنیا میں نئی داستانیں بنی جارہی ہیں۔
بچی زرمین کے گھر کے پاس ایک چٹیل میدان ہے جہاں روز علی الصبح وہ جایا کرتی ہے، اس میدان میں اونچے نیچے ٹیلے ہیں، ایک پرانا دخت جبکہ میدان کی مٹی پتھریلی اورآسمان نیلے بادلوں سے گھرا ہے۔
بچی کا معمول ہے کہ صبح جب ماں باپ سورہے ہوتے ہیں یہ اس چٹیل میدان کا رخ کر لیتی،
ایک کم ڈھلوان ٹیلے پر بیٹھ کر تازہ ہوااور بادلوں کی روانگی کے مزے لیتی۔
ایک دن اپنی اسی معمول کی دلچسپی کے مزے لینے میں مصروف تھی کہ اسے بادلوں میں کچھ عجیب و غریب سی شکلیں بنی نظر آئیں، وہ شکلیں جو انسانوں سے مشابہت نہیں رکھتیں۔
جانوروں سمیت کئی ایسی مخلوقات جو اسے ابھی صرف ان بادلوں میں ہی نظر آتی تھیں۔ کبھی تو ایسا لگتا جیسے بادلوں میں کوئی جنگ ہو، کھبی محبت، کبھی دوڑ بھاگ ہو رہی ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہے بھی کہ محض یہ ایک وہم ہے؟ اس کی تصدیق کے لئے ایک دن وہ اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ لے گئی۔
اس کی بہن کو ان بادلوں میں سوائے ایک سفید لائن کے کچھ نظر نہ آیا۔
بچی کو بادلوں کے علاوہ اب کچھ اچھا نہیں لگتا تھا، اب اس کے خواب بھی پہلے جیسے نہیں رہے تھے ،
اسے اپنے خواب میں اناج کھا نے کی طلب ہوتی، کبھی زمین پر اس کو ہیرے جوہرات، کبھی نادرونایاب سکے ملتے جسے وہ جمع کر لیتی۔ اور صبح آنکھ کھلتے ہی وہ اپنی پسندیدہ جگہ چلی جاتی۔
آج اس نے بادلوں سے کلام شروع کیا، وہ کہتی کہ ابھی جو شکل بادل نے بنائی ہے کچھ نیا بنائے ، لیکن بادل اپنی رفتار سے آتے جاتے رہے اور اس کی اس بات کو ئی اثربادلوں پر نہ ہوا۔
محض دو دنوں کے کلام کے بعد بادلوں سے اس کا کنکشن بالآخرہو ہی گیا۔ اب وہی ہو تاجو وہ کہتی۔۔۔
بچی روزانہ 2 گھنٹے اس میدان میں آکر بیٹھا کرتی تھی ، تقریباََ 8 بجے وہ اپنے گھر واپس چلی جاتی ۔
ایک دن اس میدان میں ایک پرانے پیٹر پر کچھ پرندے آکر بیٹھ گئے، پرندے زرمین کو دیکھ کر آوازیں نکالنے لگے،
بچی فوراََ ان کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی ، ” کیا ہوا کیوں شور کر رہے ہو “ ؟ پرندوں نے پہلے سے زیادہ شور مچانا شروع کردیا۔
اس بار بچی نے ان سے کلام نہیں کیا بلکہ ان پرندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں خاموش کرانے کی کو شش کی،
یہ تیکنیک اس 5 سالہ بچی کے ذہن میں کیسے آئی یہ ایک حیران کن بات ہے۔۔۔
بچی کی تکنیک کام آئی اور پرندے یکدم خاموش ہوگئے۔
آج کے دن بچی نے ایک نئی چیز سیکھی کہ پرندے کیسے خاموش کرائے جائیں؟
اب روزانہ اس میدان میں وہ، اور ڈھیروں پرندے اس پیٹر پر بادلوں کے مزے لیتے۔
بچی کی حس دن بدن تیز ہورہی تھی،
اب وہ پرندوں کی آوازیں سیکھنے لگی
تاکہ ان سے ابلاغ کا عمل بڑھایا جائے۔
بچی کے خواب میں اضافے اور تبدیلی کی شروعات ہو گئی، اب وہ خواب میں سیر کو جاتی، ایسی جگہوں کو دیکھتی جس کے بارے میں اس کے ماں باپ بھی نہیں جانتے تھے۔۔۔
بچی ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ ذہین، مضبوط اور خوبصورت خدوخال کی مالک ہوتی جارہی تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی دودھ پینے کی عادت پختہ اور طلب میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
پانچ سال کی عمر میں اس کی خوار ک کا انحصا ر 1 لیٹر سے زائد دودھ پر تھا۔ چینی اور اس سے بنی اشیاءکا استعمال اس کے علاوہ تھا۔
باپ اپنی بچی کی صحت دیکھ کر خوب خوش ہوتا اور اپنی بچی زرمین کی پہلے سے زیادہ توا ضع کرتا۔
بچی کو اب ناظرہ پڑھنے کی تر بیت دی جانے لگی۔ محض چند ماہ میں ختم قر آن کے ساتھ ہی روزوں کا آغاز بھی ہو گیا۔
بچی زرمین بنیادی مذہبی تر بیت کے بعد” جو ہر مسلمان گھر انے میں لازم ہے “ کے ساتھ ہی جذب و کشف کی حالت میں یکدم اضافہ ہونے لگا۔
سات سال کی عمر میں پابندی صوم و صلوة کے ساتھ اس کی خوش خوراکی اور مشاغل میں اضافہ ہوتا گیا۔
سات سا ل کی عمر میں اس نے ایک وقت میں آدھا کلو مٹھائی کھا کر گھر والوں کو حیران کردیا
اس پر بھوک کا یہ عالم کہ اور مٹھائی کھانے کی فرمائش پر والد نے بازار سے اورمٹھائی لا کر کھانے کو دے دی۔
روزانہ 1 دیسی انڈہ 3 پراٹھے اس کی خوراک کا لازمی جز تھے۔
ماں بچی کا پیٹ بھر نے کی خاطر روزانہ اسے سوجی کا حلوہ کھلاتی
اس کی خوراک میں تبدیلی کا عمل جاری رکھتی
لیکن بچی کی مٹھاس کی طلب میں اضافہ اس حددرجہ ہوگیا کہ وہ چینی چرا کر کھانے لگی۔
اسی برس بچی نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ سمندر کے پاس کھڑی ہے
اچانک بچی زرمین نے پانی میں چھلانگ لگائی۔
کسی ماہر غوطہ خور کی طر ح پانی کی گہرائی میں پہنچی تو دیکھا کہ
پانی کے اندر ایک گولا سا بنا ہو ا ہے جو بر ق رفتاری سے گھوم رہا ہے
بچی اس گول گھومتے گولے کے ذریعے ایک ایسی جگہ پہنچی جہاں گولڈن لائٹس تھیں، لیکن پانی نہیں تھا،
گویا یہ اس گم نام جگہ پرپہنچنے کا دروازہ ہو۔
وہاں ایک شخص اس بچی زرمین کو دکھائی دئیے، انہوں نے سلام کے بعد بچی سے کہا
کیا تم جانتی ہو کہ تم کہاں ہو؟
زرمین نے کہا نہیں، انہوں نے پوچھا، تمہارے سامنے جو یہ دو بڑے دروازے ہیں جانتی ہو کہ کون سے در وازے ہیں؟ بچی نے کہا نہیں۔
انہوں نے کہا، اِس دروازے سے جانے پر جنت اور اُس دروازے سے داخل ہو کر دوزخ ملے گی۔
بچی کو سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ آخر یہ جنت دوزخ کیا ہے؟ اس شخص نے اسے ددوزخ کا دروازہ کھول کر نظارہ کروایا تو وہاں شعلے، اندھیرا اور چیخیں سنائی دیں،
دوسرا دروازہ کھولا تو یہاں ایک تیز روشنی وہ بھی سفید اور گولڈن کا مکسچر۔۔۔۔
لیکن اس بچی کی نظر ا س دروازے کے اوپر والی دھواں نما دیوار پر پڑی
جس پرعربی زبان میں کوئی آیت درج تھی۔
اُس شخص نے بتایا کہ اسے پڑھنے سے اس دروازے میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔
کیا اسے تم پڑھ سکتی ہو؟
بچی نے کہا جی ہاں ، اس نے جوں ہی آیت کے آخری حروف مکمل کئے، بچی اُسی سمندری گولے میں واپس پہنچ گئی۔
ایک ان دیکھی دنیا کا دروازہ ’’جو کچھ وقت کے کھلا تھا’‘ بند ہوتے ہی زرمین کی آنکھ کھل گئی۔
خواب سے بیدار ہونے پر اس کے جسم میں شدید درد اور تھکن کے آثار تھے
اسے یاد تھا کہ وہ ابھی کہاں سے آرہی ہے اور اس نے کیا دیکھا؟
دادی کے آواز دینے پر بچی ناشتہ کر نے بیٹھ گئی
آج تھکن کی وجہ سے وہ پسندیدہ میدان نہیں گئی تھی۔
اس نے دادی سے اپنے خواب کا ذکر کیا ، دادی نے کہا، ’’خواب کسی کو نہیں بتاتے‘‘
تم نے جو دیکھا ہے اس عمر میں بچوں کو ایسے ہی خواب آتے ہیں
بچے معصوم اور دل کے صاف ہوتے ہیں اس لئے” اللہ اور اس کے فرشتے بچوں کو پسند کرتے ہیں ‘‘ ۔
چلو اب ناشتہ ختم کرو ورنہ تمہاری ماں مجھے کہے گی کہ آپ بچوں کو ناشتہ نہیں کرنے دیتی؟
زرمین کو قرآ ن اُس کی دادی نے پڑھایا تھا
دادی جو خود بھی ایک روحانی شخصیت کی مالک تھیں، اپنی اس پوتی سے بہت محبت کر تی تھیں۔
اس کے خوب ناز بھی اٹھاتیں
بچی کو اس کی عمر کے لحاظ سے ضروری باتوں کی تاکید بھی کرتی رہتی تھیں۔
اگر آپ کو تحریر پسند آئے اور آپ جاننا چاہتے ہیں کہ زرمین کے ساتھ آگے کیا ہوا تو اپنی سے رائے سے ضرور آگاہ کریں۔