September 20, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
عمران خان کا وزارتِ عظمیٰ سے پارٹی چئیرمین اور جیل کے کمرے کا سیاسی سفر

عمران خان کا وزارتِ عظمیٰ سے پارٹی چئیرمین اور جیل کے کمرے کا سیاسی سفر

کرپشن سے پاک نیا پاکستان بنانے کا خواب دیکھنے والے

کا’’میں کلا ای کافی آں‘‘ کے نعرے نے سابق وزیراعظم

پاکستان عمران خان نیازی کے تکبر کا پول کھول دیا۔

تحریر: وانیہ خان

بزرگ کہتے ہیں کہ رتبہ ملے تو اللہ کریم سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ تکبر اور گھمنڈ سے بچائے مگر عمران نیازی کو اپنی حیثیت سے زیادہ عزت اور مقام ملتے ہی غرور نے اُسے پاگل کر دیا۔

عمران خان نیازی کا تکبر انہیں لے ڈوبا، وزارتِ عظمیٰ سے پارٹی چئیرمین تک کا عہدہ وہ سب کچھ کھو بیٹھے۔

ایک وقت تھا جب عمران خان کی بطورِ سیاستدان کوئی ساکھ نہیں تھی ان کی پارٹی کو عوامی پزیرائی تک حاصل نہ تھی مگر پھر یوں ہوا کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کرپشن کے نعرے نے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کرپشن کی غضب کہانیوں کو زبان زد عام کر دیا

اور یوں عمران خان کی اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ انہیں سپورٹ ملی اور نوجوانوں سمیت سیاسی لوگ اس کے اردگرد اکٹھہ ہونے لگے۔

پاکستان میں پی ٹی آئی کی صورت میں سیاسی پارٹی کی مقبولیت ( جس کے لئے عوام جان کی بازی لگانے کو تیار ہوگئے اور اپنی فوج کے خلاف سخت ردعمل کا مظاہرہ کرنے لگے حتی کہ عوام دو حصوں میں بٹ کر آمنے سامنے ہوگئے، نیا پاکستان اور پرانا پاکستان کی تر کیب سے ایسا ماحول پیدا ہواکہ کہ ملک دو لخت ہونے کے درپے تھا) کی تاریخ دوبارہ دہرائی گئی

عمران خان کا وزارتِ عظمیٰ سے پارٹی چئیرمین اور جیل کے کمرے کا سیاسی سفر

جب ایم کیو ایم کے قائد تحریک الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو ماضی میں عوام میں بے پناہ پزیرائی حاصل تھی جو وڈیرہ شاہی اور اردو اسپیکنگ کی واحد جماعت کے طور پر اُبھری تھی اور اس پارٹی نے بھر پور عروج حاصل کیا ۔ پھر اچانک زمین بوس ہوگئی۔ اب اس اس پارٹی کے لوگ اپنی اپنی سیاسی پارٹی بناکر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف ہیں۔

یہی حال پی ٹی آئی کی پارٹی کابھی ہوا ، پہلے اسے پاکستان سمیت دنیا میں بطورِ سیاسی لیڈر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ جب ساتھیوں کی وجہ سے عمران نیازی کی پہچان بنی اور ووٹ بینک میں اضافہ ہوا تو عوامی جذبے اور جوش کو دیکھتے ہوئے نیازی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ‘میں کلا ای کافی آں(یعنی میں اکیلا ہی کافی ہوں)۔

کانفیڈنس اچھا ہوتا ہے مگر اوور کنفیڈنس انسان کو لے ڈوبتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کا مرتکب عمران خان نیازی ہوئے۔

عمران نیازی نے خود کو عقلِ کُل سمجھا اور خدا کی طرف سے ملنے والے دیگر ساتھیوں کو نظر انداز کیا، جس کو دیکھتے ہوئے آخر کار تمام پارٹی راہنما اور ووٹرز ایک ایک کر کے رفو چکر ہوتے گئے اور اب نیازی اکیلا جیل کے سیل میں بیٹھ کر خود کو ایک کمرے کا وزیراعظم گمان کیئے ہوئے ہے

عمران خان کا وزارتِ عظمیٰ سے پارٹی چئیرمین اور جیل کے کمرے کا سیاسی سفر

کمال حوصلہ ہے اس شخص کا کہ آج بھی اس آس میں ہے لوگ اس کی آواز پر اداروں کا گھیراؤ اور حملہ کرنے کے لئے اکٹھا ہو جائیں گے۔

نیازی کی جذباتیت، غرور، تکبر میں کی گئی حرکتوں نے اسے اکیلا کردیا۔ میں کلا ای کافی آں کا نعرہ اب انہیں جیل میں اکیلے ہی سننا پڑتا ہے۔

: یہ بھی پڑھیں

پاکستانی سیاست میں پیسے کا کرم: الیکشن، فراڈ اور جمہوریت

عمران خان کو خود بھی اور اس سے متاثر ہونیوالوں کو بھی اب یہ سمجھنا چاہیے کہ پروردگار کے اصولوں کی مخالفت اور تکبر نہیں کرتے ورنہ مقام چھین بھی لیے جاتے ہیں اور اپنے زمانے کے بڑے بادشاہ نمرود کی طرح مچھر سے مرنیوالے آج بھی نیازی کی طرح وزارتِ عظمیٰ سے جیل کے ایک کمرے تک محدود ہو جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×