September 20, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
مرد کو مرد سے خطرہ ہے

مرد کو مرد سے خطرہ ہے

پاکستانی معاشرے میں چند مخصوص شر پسند مردوں نے

اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے پرانے طریقے کو

نیا روپ دے دیاہے۔

ایکسلوسو ڈیجیٹل ویب رپورٹ: روبینہ یاسمین

کراچی: پاکستانی معاشرہ جسے (پدرسری) یعنی مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک جانب مرد محافظ ہے تو دوسری طرف عدم تحفظ کا شکار بھی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں کیوں کہ ’’مرد کو درد نہیں ہوتا‘‘اور ’’مرد کچھ بھی کرے، اس کو فرق نہیں پڑتا‘‘ جیسے جملوں نے مردوں کے مسائل، ان کی ترجیحات اور کم ہی زیر لب آنے والے موضوعات کو پس پشت ڈال دیا ہے حتی کہ معاشرے میں تیزی سے بڑھتی گھٹن کو پریشر ککر بنادیا ہے جو کسی وقت بھی پھٹنے کو ہے۔

مردوں کے جنسی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کےطول و عرض میں (مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ’’مردوں کی جانب سے معیوب سمجھنے جانے والے موضوعات‘‘ پربات چیت کی گئی۔

ایک ایسے حساس موضوع پر آر وائی میڈیا ٹاکس کی نمائندہ خصوصی روبینہ یاسمین کی جانب سے تحقیقی رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جس میں مردوں کو مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی، زبردستی اور تشدد جھیلنا پڑتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں ان مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے کہ جو مردوں کی جنسی ہراسانی، جسے اکثر مرد نظر انداز تو کردیتے ہیں لیکن ایسی پیشکش یا کوشش ایک مرد کی نفسیات اور معاشرے میں اسکی حیثیت اور اس کے وقار کو کس حد تک مجروح کرتی ہے۔

کیا واقعی اس طرح کے جنسی مسائل، مردوں کے لئے جسمانی اور ذہنی اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں؟

کیا جب کوئی فرد(مرد)، بطور معاشرتی حیوان اپنے کسی مخصوص اور ناپسندیدہ عمل سے معاشرے کے بنائے ہوئے حدود کو توڑتا ہے تو اس کے نقصانات کا ازالہ کرپانا ممکن ہوتا ہے یا نہیں؟ اس جیسے کئی سوالوں کا جواب اس خصوصی رپورٹ میں پڑھا جاسکتا ہے۔

 پاکستانی معاشرے کا مضبوط مرد، پبلک ٹرانسپورٹ میں، آفس میں، کسی تقریب میں، ملازمت حاصل کرنے کے لئے، مسجد میں نماز پڑھنےکے دوران، مدرسوں میں، نائی کی دکان پر، بائک پر لفٹ لینے کے بعد، جیل میں قید کے دوران، راہ چلتے، کسی گلی کے کونے میں، حتی کہ سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناپسندیدہ حرکات و واقعات کا تذکرہ کرنے کو اپنی بدنامی اور مردانگی کے خلاف سمجھتا ہے۔

حساس و معیوب موضوع سے متعلق روبینہ یاسمین کی اس نیوز رپوٹ میں اکٹھا کئے گئے ڈیٹا مٰٰیں سے چند افسوسناک واقعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

شہر کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں عمومی طور پر مردوں کا خواتین کے لیے مختص حصے میں دانستہ اور غیر دانستہ طور پر گُھس جانے کے اور ناپسندیدہ حرکات و واقعات سے تو ہم واقف ہی ہیں لیکن خود مرد پیسنجرز اپنی جیسی جنس یعنی مرد کی جانب سے غیر اخلاقی حرکتوں سے تنگ ہیں۔

عامر ایک فر ضی نام ہے، ان کی عمر47سال ہے اور ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی بنا پر بتایا کہ، بطور مرد میں یہ سمجھتا ہوں کہ مردوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوتی ہیں۔

عامر نے کہا کہ، میں آپ کو اپنے ساتھ ہونے والے کچھ واقعات بتادوں تو آپ حیران ہو جائیں گی۔

میں آفس جانے کے لئے کراچی کی لوکل بس میں سفر کیا کرتا تھا۔ معمول کے مطابق میں بس میں چڑھا اور سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے ایک جانب کھڑے ہوکر سفر کرنے کے خیال سے ابھی شدید کوفت میں مبتلا تھا کہ میں نے ایک اجنبی شخص کا ہاتھ اپنے عضوئے مخصوصہ پر محسوس کیا۔

یہ وہ آدمی تھا جسے بیٹھنے کے لئے بس کی سیٹ ملی تھی اور میں اس کے دائیں طرف سیدھا کھڑا ہواتھا۔ میں نے جب اس کی جانب دیکھا تو اس نے مجھے نا پسندیدہ کام کا اشارہ کیا۔ مجھے اس آدمی پر بہت غصہ آیا لیکن میں نے اسے کچھ نہ کہا اور نہ ہی اس کی گندی حر کت پراسے ڈانٹا۔ آپ اسے میری بے بسی اور اس اجنبی شخص کی شرارت کہہ سکتی ہیں۔ میں نے چپ چاپ اپنی منزل کی راہ لینے میں ہی عافیت جانی۔

: یہ بھی پڑھیں

کیا واقعی بلوچستان کے جنگلات خطرے میں ہیں؟

‘تیسری جنس کا غیر سیاسی ’ہیجڑا فیسٹیول

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کی شنوائی کے راستے بہت ہیں لیکن ہم مردوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ غلط ہوا یا ہونے والا تھا یا زبردستی کرنےیاتشدد کا نشانہ بننے والے مرد کے طور پر محض میری اپنی گواہی کسی شمار میں نہیں آتی۔

میرے ہم عصر دوست کہتے ہیں کہ تم خود ہی ٹھیک آدمی نہیں ہو وغیرہ وغیرہ۔

ضمیر ایک فرضی نام ہے۔ ان کی عمر42 سال ہے اور ایک نامی گرامی میڈیا ہاؤس میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی شناخت کو ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں آفس سے گھر جانے کے لئے راستے میں کھڑا تھا۔ رات کے وقت وہ جگہ کافی سنسان ہوتی تھی۔ میں نے ایک بائیک رائڈر سے لفٹ مانگی۔

مرد کو مردسے خطرہ ہے

اس نے بائک روک کرمجھے بیٹھنے کوکہا۔

میں جب بائیک پر بیٹھا تو اس نے مجھے کہا

کہ تھوڑا قریب ہوکر بیٹھو، میں قریب ہوکر

بیٹھ گیا۔ تھوڑی دور کے سفر کے بعد پھر اس

نے کہا کہ تھوڑا اور قریب ہوکر بیٹھو۔

ایسا اس نے جب تیسری بار کہا تو مجھے اب

یقین ہوگیا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔

ضمیر نے بائیک رائڈر کے خدوخال بتاتے ہوئے کہاکہ، وہ تھوڑا موٹا اور 40 سے 45سال کے درمیان کا آدمی تھا، بائک چلانے کے دوران وہ مسلسل راستے سے گزرنے والے مردوں کو بائک اسپیڈ ہلکی کرکے جائزہ بھی لے رہا تھا۔

مجھے اس کے اس جملے اور حرکتوں سے خوف محسوس ہورہاتھا لیکن میں پھر بھی ہمت کر کے بیٹھا رہا۔

میڈم آپ یقین کریں کہ اگروہ مین روڈ سے ہٹ جاتا اور کسی گلی سے بائک نکالتا اور میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کرتا تو شاید میں اپنے آپ کو بچا نہیں پاتا کیونکہ اس وقت میری عمرکم تھی۔

عمر ایاز ایک فرضی نام ہے۔ ان کی عمر26سال ہے اور آج کل کراچی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں سے ایک واقعہ شئیر کیا۔

میں نارتھ ناظم آباد سے حیدری مارکیٹ جانے کے لئے چنگ چی رکشہ میں دو بوڑھے لوگوں کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ میرے دائیں جانب ایک بوڑھے انکل بیٹھے تھے وہ اپنا ہاتھ دھیرے دھیرے سرکاتے ہوئے میری پیٹھ کے پیچھے حصے تک لے گئے۔

بزرگو کے ہاتھ کی ہل چل مجھے محسوس ہورہی تھی۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ آپ اپنا ہاتھ سنھال کر بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ہاتھ میں راڈ ڈلی ہوئی ہے۔ میں انہیں وارننگ دے کر موبائل چلانے میں مصروف ہوگیا۔

انہوں نےموقع ملتے ہی میری پینٹ میں ہاتھ گھُسا دیا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے یہ’’گندی حرکت‘‘ کی ہے۔ انہوں نے پھر کہا کہ میرے ہاتھ میں راڈ ڈلی ہوئی ہے۔ اس بار میں نے اس کے منہ پر زور کا مکا مارا۔

میرے دوسری جانب بیٹھے انکل نے مجھ سے ہاتھ اٹھانےکی وجہ معلوم کی۔

جب میں نے انہیں بتایا تو انکل نے چنگ چی والے کو رکشہ سائڈ میں روکنے کو کہا اور گندی حرکت کرنے والے لونڈے باز انکل کو پیٹنا شروع کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ایک مجمع جمع ہوگیا اور سب نے حسب توفیق اس کار خیر میں اپنا حصہ یہ کہہ کر ڈالا کہ یار مرد ہوکر لڑکے کو چھیڑ رہا ہے۔ لونڈے بازی کی کوشش کررہا تھا۔

میں نے عمر ایاز سے کہا، آ پ کو بزرگ آدمی کو مکا نہیں مارنا چاہئیے تھا۔ عمر ایاز نے کہا، میڈم میں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔ میری اپنی بھی کوئی عزت ہے۔ اسے میں ہی ملا لونڈے بازی (اغلام بازی)کے لئے۔

اس ملک میں کوئی قانون نہیں کہ اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد کو چھیڑے یا گندی حرکت کرے تو اسے سزا دی جائے۔

لہذا ہم خودفیصلہ کرتے ہیں کہ بطور ’’مرد‘‘ ہمیں خود کو ان بُرے آدمیوں سے کیسے بچانا ہے۔

مرد کو مرد سے خطرہ ہے

عمر ایازکا لہجہ سرد اور افسردہ تھا جب انہوں نے کہا

کہ پہلے پہل تو مجھے اس بات کا معلوم ہی نہیں تھا کہ

ایسے لوگ جو بظاہر بوڑھے ہوتے ہیں یا صوم صلوۃ

کے پابند ہوتےہیں ایسی نازیبا حرکات اور برے کاموں

میں ملوث بھی ہو سکتے ہیں۔

انہیں تو جہاں بھی موقع ملے گا ٹھوک دیں گے۔

رفیق حسین کی عمر20سال ہے اور وہ ان دنوں اپنا گریجویشن مکمل کر رہے ہیں۔ ان کی رہائش ناظم آباد میں ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ رونما ہونے والے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، میں اکژ نارتھ ناظم آباد سے ناظم آباد عباسی اسپتال تک پیدل آتا ہوں۔

بائک والے بائک روک روک کر پوچھتے ہیں بھائی کہاں جاؤ گے؟ میں نے کہا کہ رینجر ہیڈ کوارٹر جاؤں گا، ابھی نئی نئی پوسٹنگ ہوئی ہے۔ چھوڑدو گے آگے تک ؟ میرا یہ جواب سن کر وہ بائک دوڑا دیتے تھے۔

جب بائک والوں سے جان چھوٹی تو ایک اور بلا میرے پیچھے لگ گئی۔ یہ ایک آدمی تھا جو دورسے میرا جائزہ لے رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں اب اکیلا ہوں۔ وہ تیز قدموں سے میرا پیچھا کرنے لگا۔ اب مجھ سے ذرا فاصلے پر چلنے لگا اور پھر ایک جگہ اس کے اور میرے قدم ایک ساتھ آگے بڑھنے لگے۔

وہ میرے قریب آیا اور کہنے لگا، بھائی کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا آگے جا رہا ہوں۔ اس نے پو چھا، بھائی کیا تم شادی شدہ ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے؟

اس نے کہا، میرے ساتھ چلو گے؟ اس کے ساتھ چلنے والی بات سن کر میں رک گیا اور پوچھا کہ کہاں جانے کی بات کر رہے ہو، کہاں چلنا ہے؟ اس نے کہا کہ لڑکو ں کا شوق رکھتے ہو؟ میں ابھی اس کی بات سمجھ نہیں پایاتھا کہ اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے اس لڑ کے نے پھر کہا، سمجھ تو گئے ہوگے؟ میں نے اسے کہا کہ دفع ہوجا یہاں سے مردود۔۔۔ورنہ تجھے پکڑ کے ابھی رینجرز ہیڈ کوارٹر لے جاؤں گا۔۔۔

وہ کہنے لگا کہ سوچ لو بھائی، ’’مزہ بہت ائے گا‘‘۔ اس بار میں اس کے پیچھے دوڑا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

نوجوان رفیق حسین کہنے لگے، میڈم میں اب سوچتا ہوں کہ اس کے ساتھ چلا ہی جاتا تو اچھا ہی ہوتا۔ وہ اپنی جگہ پر لے جا کر جیسے ہی اپنی شلوار اتارتا، میں اس کی کمر پر اپنی بھاری بوٹ مارتا اور اتنا مارتا کہ ’’مزہ بہت آئے گا‘‘ کا اصل جواب مل جاتا اس مردود کو۔

کورنگی کے رہائشی ایک چھوٹے بچے نے جس کی عمر9سال ہے نے بتایا، میں نائی کی دکان پر بال کٹوانے گیا۔ بال کاٹنے کے دوران نائی نے مجھے کہا کہ اپنے دونوں ہاتھ کرسی پر رکھو اور سیدھے بیٹھو۔

اس کے بعد وہ میرے بائیں جانب آکر بال کاٹ رہا تھا اور اپنا جسم میرے دائیں بازو سے رگڑ رہا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ صحافت میں درس تدریس سے وابستہ ہیں۔

مردوں کے ساتھ جنسی ہراسانی، زبردستی اور زیادتی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسانی صرف خواتین کے ساتھ نہیں بلکہ مرد کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ ہزاروں سالوں سے موجود ہے اور رہے گا۔ ہمیں فکر چھوٹے بچوں کی ہے کیونکہ مردوں کے مردوں کے ساتھ تعلقات کا اداروہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہ ایک لت ہے۔ ہمیں اسکی مثالیں ٖغلاموں کے دور میں بھی ملتی ہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں لڑکوں کے حرم علیحدہ ہوا کرتے تھے۔

(RY MEDIA TALKS فوٹو کریڈٹ: روبینہ یاسمین (نمائندہ خصوصی

ماہر تعلیم ڈاکٹر توصیف احمد خان کہتے ہیں کہ بچوں کے

ساتھ جنسی زیادتی کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

عمومی طور پر جنسی بدسلوکی قریبی رشتہ دار کرتے ہیں یا

مدرسے میں پڑھانے والے کرتے ہیں یامحلوں میں لڑکے کرتے ہیں یا

فٹ پاتھ پر بچوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔

ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کہتے ہین کہ یہ جنسی آسودگی کا ایک طریقہ ہے جس سے بچوں کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے۔ بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔بچےاحساسی کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مرد کو مردسے خطرہ ہے

جنسی خواہش انسانی ضرورت اور فطرت ہے لیکن

پاکستانی معاشرے میں جنسی ضروریات و خواہشات پر بات کرنا ٹیبو ہے۔

نتیجہ، مسائل بڑھتے ہیں اور برائی’’ جرم‘‘ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

اس سنجیدہ مسئلے پر بات ہونی چاہئیے۔ ڈیبیٹ ہونی چاہئیے۔

جو لوگ اس عادت میں مبتلا ہیں ان کی کاؤنسلنگ ہونی

چاہئیے تاکہ ہم بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے سے بچاسکیں۔

ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ، پاکستانی معاشرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مردوں کے خواتین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پربے تحاشہ پابندیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے کا مرد جنسی مسائل سے چھٹکارے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے لڑکوں سے تعلقات قائم کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔

مرد کو مرد سے خطرہ ہے
(RY MEDIA TALKS فوٹو کریڈٹ: روبینہ یاسمین (نمائندہ خصوصی

دوسرا پہلو یہ ہے کہ، کچھ لوگوں کی یہ فطری عادت ہوتی ہے کہ وہ مرد اور خواتین سے بیک وقت جنسی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ بڑی عمر کے مردوں کا مسئلہ آپس کے تعلقات کو یقینی بنانے کا ہے ۔

پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اپنے ساتھ ہونے والے تجربے کو شئیر کرتے ہوئے کہا، جب میں طالبعلم تھا خودمیرے ساتھ بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں رش کے دوران ہوا کہ پیچھے سے کسی شخص نے کوئی ناپسندیدہ حرکت کردی۔ لوگ عموماََ رش کے دوران اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، اس طرح کے عمل سے جو شخص راغب ہوجاتا ہے پھر وہ بھی اسی کام کا حصہ بن جاتا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ پاکستانی معاشرے کے اس ٹیبو کو بطور موضوع منتخب کرکے بات کی جائے۔

لوگوں کو بالخصوص بچوں کو آگہی فراہم کی جائے۔

پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا مکمل انٹرویو دیکھنے کے لئے لنک پر کلک کریں

اس بارے میں کہ کیا پاکستان میں مرد جنسی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ زیبسٹ یونیورسٹی کراچی کی ماہر سماجیات پروفیسرڈاکٹر بیلا نواز سے ان کی ماہرانہ رائے معلوم کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ

طاقتور کی جانب سے کمزور لوگوں، بالخصوص چھوٹے بچوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ کمزور اور آسان ہدف ہوتے ہیں۔

مرد کو مردسے خطرہ ہے

پاکستان میں جنسی ہراسانی، جنسی تشدد، زبردستی اور زیادتی، یہ معاشرے کا سنگین مسئلہ ہے۔

اوؔل تو پاکستان میں جہاں خواتین کے حوالے سے جنسی

ہراسانی یا زیادتی سے متعلق کیسسز کے شماریات بہت کم

ملتے ہیں تو مرد کے بارے میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

کہ اسکا کوئی ڈیٹا مل پائے یا اس پر بات بھی کی جائے۔

پاکستان کے برعکس انگلینڈ اور امریکہ میں جب جرائم

پر مبنی سروے ہوتے ہیں تو اس میں اکثر اس نوعیت

کے سوال پوچھے جاتے ہیں۔

سن2020 میں برطانیہ میں ہوئے ایک سروے کے مطابق

سولہ سال سے لیکر 75 سال کے عمر کے ہر 100میں

سے1مرد کو جنسی ہراسانی کا تجربہ ہوا۔

ماہرسماجیات پروفیسرڈاکٹر بیلا نواز کا کہنا تھا، اس مسئلے کا پبلک ڈسکورس کا حصہ نا بننے کی اہم وجہ ہے یعنی کہ مردانگی جو کہ پدرسری معاشرے کی ایجاد ہے ۔ Hegemonic masculinityہیجیمونک مسکولینیٹی

ایک مرد جو کہ جسمانی طور پر مضبوط ہے اور جنس مخالف میں دلچسپی رکھتا ہے یہی اس کے مرد ہونے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ تو کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ایک مرد جنسی ہراسانی کا شکار ہوسکتا ہے۔

کیونکہ بطور مرد، وہ ایک حکمران ہے، اسکی بالادستی ہے۔ وہی معاشرہ بناتا ہے اس کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اصول وضوابط بناتا اور نافذ کرتا ہے۔ بطور مرد اسکی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ جسمانی طور پر مضبوط ہو گا اور اپنی مخالف جنس میں دلچسپی لے گا۔

بطور مضبوط مرد اگر وہ اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کرتا ہے یا اس کا شکار ہوتا ہے تو بات اسکی ’’مردانگی‘‘ پر آئے گی اور یہ دھبہ بن کر ابھرے گی۔ اس پر لوگ یقین نہیں کریں گے۔ کیونکہ مردوں کے بنائے معاشرے میں مرد کیسے ہراساں ہوسکتا ہے؟۔

اس کا مطلب تو یہی لیا جائے گا کہ وہ ’’نامرد‘‘ ہے جو اپنا بچاؤ نہیں کر پایا یا پھر اس کو ہم ’’جنس پرست‘‘ مان لیا جائے ۔

یہی وکٹم بلیمنگ ہے جو مردوں کا بنایا ہوا معاشرہ خواتین کے معاملے میں کرتا ہے اور یہی مرد کے کیس میں اس پر بھی لاگو ہوجاتا ہے۔

لہذا معاشرتی دباؤ کی بنا پر مرد اپنا دکھ درد اپنےدوستوں سے بھی نہیں بانٹ پاتے۔

اس وہم کو اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ زیادتی صرف عورت کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے، مرد کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ 

پدرسری معاشرے میں بقول ڈاکٹر بیلا نواز کے، طاقتور ہمیشہ کمزور کو دباتا ہے۔ مثال کے طور پر مرد خواتین کو طاقت کے بل بوتے پر گھریلو تشدد، ازداوجی زنا اور زنا بالجبر کر کے دباتا ہے اور اس کا کوئی کچھ نہی بگاڑ پاتا۔ اور الزام عورت پر لگتا ہے کہ اس نے ہی کچھ غلط کیا ہوگا ۔

طاقت کے اس عدم توازن کو صرف قانون اور اس پر سختی سے عمل درآمد سے ہی درست کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ مرد اور عورت کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ مرد کے تحفظ کی بات ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جس طرح مرد کا خواتین پر کیا جانے والا ہر ظلم ایک جرم ہے ٹھیک اسی طرح مرد کا مرد کی جانب سے کی جانے والی ہراسانی اور زیادتی کا معاملہ بھی ایک ’’جرم‘‘ ہے۔ اس پر لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سوشل سپورٹ کی ضرورت ہے۔ آگہی کے لئے اس پر ریسرچ پیپرز لکھے جائیں۔اسکول، کالجز اور جامعات میں اس پر شعور سازی کے لئے پروگرامز کئے جائیں۔ جرم کے خلاف پالیسی بنائی جائےاور اس پر قانون سازی کی جائے۔

مرد کو مرد سے خطرہ ہے

ماہرنفسیات و جنسی صحت ڈاکٹر محمدشاہد جبران کا کہنا ہے کہ

لوگ ’’بےراہ روی‘‘ کا شکارایسےہی نہیں ہوجاتے۔

پاکستان میں مردوں کےعدم تحفؔظ کی بنیادی وجوہات ماحول، مذہب،

خوراک، انسانی ہارمونز، علاقائی خدوخال وپرورش، روایات

غربت، مہنگائی اور بچپن میں پیش آنے والے غیر اخلاقی رویئے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد جبران نےمزید کہا کہ ماحول کے اثر کی وجہ سے یہ ایک ردعمل کا نام ہے۔ مرد کےساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہےکہ اس کے فیزز آف لائف میں تبدیلی بہت تیزی سے آتی ہے۔ تبدیلی عورت میں بھی آتی ہے لیکن عورت فطری طور پر مضبوط ہے اس لئے ان کے جنسی مسائل سامنے نہیں آتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مردوں میں ہارمونزکی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ کچھ مردوں میں جنسی خواہشات میں کمی جبکہ بعض مردوں میں اضافہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک بچہ بلوغت سے پہلے ہی برائی کا شکار ہوگیا اور ایک سے زائد بار ہوگیاتو اب یہ کسی کی جانب سے پوری کی جانے والی جنسی ضرورت اس بچےکی عادت بن جائے گی۔

بچہ اپنی جنسی ضرورت کو پوراکرنے کےلئے ایسےمرد کو تلاش کرے گا جو اس کی خواہش کو پورا کرے۔

ڈاکٹر محمدشاہد جبران کے مطابق، یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس میں ایک مرد فاعل اور دوسرا مرد مفعول ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی مرد بیک وقت دونوں (یعنی فاعل اور مفعول) ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو پالنا بہت مشکل کام ہے۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس میں بہت تیزی سے تبدیلی آتی ہے۔ باپ کبھی اپنے بیٹے سے نہیں پوچھتا کہ تمہارے بغل میں بال آئے یا پیوبک ہیئرز آئے یا داڑھی مونچھیں آرہی ہیں تو کیاکرنا ہے؟

نائٹ فال کیا ہے؟ کیا تمہیں نائٹ فال آرہے ہیں؟ تمہاری جنسی خواہشات بڑھنا شروع ہوگئی ہیں تو اسے کیسے کنٹرول کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

                                             (RY MEDIA TALKS فوٹو کریڈٹ: روبینہ یاسمین  (نمائندہ خصوصی
(RY MEDIA TALKS فوٹو کریڈٹ: روبینہ یاسمین (نمائندہ خصوصی

ہمارے ہاں باپ(مرد) اپنے بیٹے کو سیسکس ایجوکیشن(جنسی تعلیم) دیتا ہی نہٰیں ہے۔ ہمارے ہاں تو سیکس ایجوکیشن ٹیبو ہے۔ سیکس پر بات کرنا ممنوع ہے۔ اس کےبر عکس پاکستانی مائیں اپنی بچیوں کو سیکس ایجوکیشن لازمی دیتی ہیں۔

اگر جنسی ہراسانی، تشدد، ریپ اور اغلام بازی کی لت جیسے مسئلے پر قابو پانا ہے توآگہی کا آغار اسکولوں سےلازمی کرنا ہوگا۔ بچوں کو سیکس ایجوکیشن کو بطور مضمون، نصاب کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔ اپنےبچوں کا بہت خیال رکھنا ہوگا۔ بچوں کو اچھے اور برے فعل کی تمیز سکھانی ہوگی۔

ماہرنفسیات و جنسی صحت ڈاکٹر محمدشاہد جبران کا کہنا ہے ہمیں ایسا ماحول پیداکرناہوگا جہاں چھوٹے لڑکوں کو جنسی ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جائے اور اس عمل کو جرم قرار دیا جائے۔

پاکستان کےسب سے بڑے شہر کراچی کے باسیوں کا کہنا ہے کہ، ہمارے معاشرے میں عام طور پر مرد کی جانب سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بیان کرنا مضحکہ خیز اور معیوب سمجھا جاتا ہے۔

تاحال سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہونے کے باوجود اب تک یہ ٹیبو ہے۔ مردوں سے متعلق ایسے موضوعات جوزیر بحث آتے ہیں انہیں نئے زاویئے سے سمجھنے اور بڑھتی ہوئی معاشرتی گھٹن کو کم کرنے کی جانب عملی قدم کا آغاز کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے اس بات کا تقاضہ بھی کیا کہ مردوں کے عدم تحفظ کا شکار ہونے کے مسئلے پر توجہ دے کر اسے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں نئے دورکے رجحانات کے مطابق پاکستانی معاشرے میں جنسی ہراسانی، زیادتی، تشدد، زبردستی، اغلام بازی ’’صنعت‘‘ کا درجہ اختیار کرے گی جہاں کلائنٹ بننے اور بنانے کے اس عمل میں ایک بڑا طبقہ اسے بطور کاروبار متعارف کراتا نظر آئے گا۔

3 تبصرے

  • Abid Hussain December 19, 2023

    کمال اسٹوری کی ہے آپ نے روبینہ۔

  • Anonymous December 19, 2023

    روبینہ یاسمین صاحبہ آپ نے بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے کیونکہ یہ ہمارے سماج کا اہم ترین مسئلہ ہے شریعت، سماج اور طبی نقطہ نظر ہر طرح سے ایک برائی ہے۔ لڑکے کے ساتھ ہونے والی زیادتی کئی اعتبار سے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اگر خاتون کے ساتھ زیادتی ہو لوگ علاقہ یا شہر تبدیل کرلیتے ہیں۔ مقدمہ درج کروا کر ملزمان کو سزا کروادیتے ہیں لیکن لڑکا ذات اپنی شرم کی وجہ سے اس طرح کی زیادتی کا گھونٹ پی کر لب سی لیتا ہے جسے سے زیادتی کرنے والے شیر ہوجاتے ہیں اور اس لڑکے کو تختہ مشق بناکر پھر اس گھنائونی لذت کا عادی بنادیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا بار بار نشانہ بننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اگرچہ تعزیرات پاکستان کے قانون پی پی سی 377 میں بدفعلی یا غیر فطری جنسی تعلق ایک سنگین جرم ہے ۔جس کی کم از کم سزا 2 اور زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال ہے۔ جس کے ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ انتظامیہ دلچسپی نہیں رکھتی دوسری وجہ پولیس کی کم نفری ، سندھ کی 5 کروڑ آبادی کو جرائم سے تحفظ دینے کے لیے مجموعی طور پر ایک لاکھ اسی ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شام ڈھلتے ہی بہت سے نوجوان شاہراہ فیصل اور دیگر شاہراہوں پر اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے بائیک اور کار والے حضرات سے سرعام لفٹ مانگتے نظر آتے ہیں یہ نوجوان مردانہ اور زنانہ دونوں طرح لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ میں نے ایک گدا گر ٹرانس جینڈر سے پوچھا کہ آپ حقیقی ٹرانس جینڈر ہیں اور آپ کی کمیونٹی کے بعض افراد رات گئے سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو اس نے کہا کہ ہمارے لبادہ میں بعض بدشوق لڑکے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اس نے کہا کہ حقیقی ٹرانس جینڈرز اپنے گرو سے تربیت حاصل کرکے آتے ہیں جنھیں ناچنے گانے کے ساتھ دینی تعلیم اور شادی بیاہ میں شرکائ محفل کو تفریح فراہم کرکے خیرات لینے کی تربیت دی جاتی ہے، ہماری تربیت میں سجنا سنورنا اور مہنگی اور پرتعیش ملبوسات زیب تن کرنا اور مغرب کے بعد رات کے وقت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ بدقماش، نام نہاد ٹرانس جینڈر یہ سب کام کررہے اور حقیقی ٹرانس جینڈرز کو بدنام کررہے ہوتے ہیں۔ ان نام نہاد ٹرانس جینڈرز سے میں متعدد تو ایسے افراد ہیں کو بدفعلی کے شوقین ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کے بیوی بچے بھی موجود ہیں وہ شہروں میں آکر ٹرانس جنیڈرز کا روپ دھار لیتے ہیں اور اس بدکاری کو بطور معاشی وسیلہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب عالمی اداروں نے ٹرانس جینڈر کو رجسٹریشن کروانے اور امداد دینے کی پیشکش کی تو یہ لوگ محض نادرا ویریفکیشن میں بھانڈا پھوٹ جانے کے خوف سے اپنا اندراج کروانے سے گریزاں رہے۔یہ وہ مسائل اور حقائق ہیں جن پر توجہ دے کر معاشرے میں بہتری کے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ شکریہ

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×