سانپ اور انسان کی فطرت میں کیا فرق ہے؟ خوف، احتیاط، اور تجسس کے درمیان کا
اشرف المخلوقات انسان کیا یا سانپ سے بھی زیادہ چالاک ہے؟
ویب نیوز : روبینہ یاسمین
سانپ اور انسان — فطرت، فریب اور حقیقت کا تقابلی سفر
قدرت کی دنیا میں سانپ ایک ایسا جاندار ہے جس سے خوف، احتیاط، اور تجسس، تینوں جذبات ایک ساتھ جنم لیتے ہیں ۔ دوسری طرف انسان، جو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے، اکثر اپنے عمل اور رویے سے خود کوسانپ کے قریب تر محسوس کرواتا ہے ۔
یہ مضمون سانپ اورانسان کی فطرت کے درمیان وہ باریک لکیر تلاش کرتا ہے، جہاں عقل، چالاکی اور فریب ایک دوسرے سے جا ملتے ہیں ۔

سانپ کی فطرت — خطرہ یا بقا؟
سانپ کا کردارصرف زہر اور خطرے تک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ فطرت نے اسے خاموشی، برداشت، صبر اور دفاع کا سبق دیا ہے ۔ سانپ اس وقت تک حملہ نہیں کرتا جب تک کوئی اسے للکار نہ دے ۔
یہی اس کی بقا کا اصول ہے ’’ خاموش رہو مگر کمزور نہ بنو‘‘۔
: کئی محاورے اسی فطرت کو بیان کرتے ہیں
“سانپ کے منہ میں چھچھوندر — نہ نگلے بنے نہ اگلے بنے”
“سانپ نکل گیا، لکیر پیٹتے رہ گئے”
سانپ سو گیا مگر لکیر باقی ہے – بات ختم ہوگئی مگر لوگ اب بھی اس پر بحث کر رہے ہیں۔
“سانپ کو دودھ پلانا، زہر پالنا ہے”
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے – معاملہ ایسے نمٹایا جائے کہ کسی کا نقصان نہ ہو۔
سانپ اورسیڑھی کا کھیل – قسمت یا اُتار چڑھاؤ والے حالات ۔
سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنا – خود کو خطرے میں ڈالنا ۔
سانپ کا بچہ – بہت چالاک، خبیث یا خطرناک شخص۔
سانپ کے بچے سانپ ہی ہوتے ہیں – مطلب: بُرے کی اولاد بھی ویسی ہی نکلتی ہے، فطرت موروثی ہوتی ہے
سانپ کے ڈسے کو رسی سے بھی ڈر لگتا ہے – جسے ایک بار نقصان ہو، وہ ہر چیز سے خوف کھاتا ہے ۔
یہ محاورے دراصل زندگی کی حقیقتوں کا عکاس ہیں اور یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہر نرمی ہرباربھلائی نہیں بنتی، اور ہر خاموشی کمزوری نہیں ہوتی ۔
انسان — عقل کا بادشاہ یا خود فریب مخلوق؟
انسان کے پاس شعور ہے، مگر اکثر وہی شعور(عقل) اس کے خلاف ہتھیار بن جاتی ہے ۔ جہاں سانپ فطری طور پردفاع کرتا ہے، وہاں انسان لالچ، طاقت اور خواہش کے نشے میں دوسروں کے لیے زہر بن جاتا ہے ۔
انسان کی زبان اس کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے — کبھی شفا، کبھی زہر۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ: “انسان خطا کا پتلا ہے” ۔
“انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے”
جب انسان اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ۔
کیونکہ سانپ صرف جسم کو ڈستا ہے، مگرانسان دل، اعتماد اوررشتوں کو زہرآلود کردیتا ہے ۔

سانپ اور انسان کی فطرت کی مشابہت
پہلو | سانپ | انسان |
---|---|---|
خاموشی | خطرے سے پہلے خاموش رہتا ہے | موقع دیکھ کر وار کرتا ہے |
دفاع | اپنی جان بچانے کے لیے ڈستا ہے | اپنے مفاد کے لیے ڈستا ہے |
فریب | قدرتی رنگ بدلتا ہے | چہرہ اور کردار بدلتا ہے |
زہر | جسمانی طور پر | نفسیاتی و جذباتی طور پر |
طاقت | صبر میں | اختیار میں |
یہ مماثلتیں سوچنے پرمجبورکرتی ہیں کہ اصل خطرہ کہاں ہے؟ جنگل میں یا انسانوں کے درمیان ؟
موجودہ دورکا انسان — نیا سانپ ؟
سوشل میڈیا، سیاست، کاروبار، اور روزمرہ زندگی میں انسان نے “مسکراہٹ کے پیچھے زہر” چھپانے کا فن سیکھ لیا ہے ۔
لفظوں کے سانپ، وعدوں کے زہر، اور جھوٹ کی کھال میں لپٹے رویے ۔ یہ سب انسان کو نئی نسل کا “مہذب سانپ” بنا رہے ہیں ۔
یہ وہ دور ہے جہاں “سانپ بدل گیا، مگر فطرت نہیں” کا محاورہ اب انسان پر صادق آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں
طارق عزیز: نیلام گھرسے سیاست تک ایک تاریخی سفر
سبق
سانپ کو اگرخطرہ نہ دو تو وہ امن سے رہتا ہے ۔ انسان بھی اگر اپنی انا اورلالچ کو قابو میں رکھے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے ۔
اصل عقل یہی ہے کہ انسان اپنی زہریلی زبان اور نیت کو قابو میں رکھے۔
اختتامیہ
سانپ اپنی فطرت سے وفادار ہے ۔ زہررکھتا ہے، مگر صرف اپنے دفاع کے لئے استعمال کرتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی فطرت میں توازن پیدا کرے، کیونکہ اصل زہر جسم کا نہیں، دل اور نیت کا ہوتا ہے ۔
