September 20, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
فرانسں کے دارالحکومت پیرس میں کھٹملوں کے حملے

فرانسں کے دارالحکومت پیرس میں کھٹملوں کے حملے

فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ، سینما گھروں اور ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں نمودار ہونے والے کھٹملوں سےنمٹنے کے لیے مہم شروع کر رہی ہے

کراچی (رپورٹ : روبینہ یاسمین)

خون چوسنے والے کیڑوں (کھٹمل ) کی بڑی تعداد، پیرس کے میٹرو، تیز رفتار ٹرینوں اور پیرس کے چارلس ڈی گال ہوائی اڈے پر دیکھے گئے ہیں

ان کیڑوں سے فرانسیسی شہری اس قدر ناراض ہیں کہ سوشل میڈیا پر کھٹملوں کی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں۔

فرانسیسی میڈیا میں چھپنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ

وزیر ٹرانسپورٹ کلیمنٹ بیون نے کہا کہ وہ اس ہفتے پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹرز کے نمائندوں کو طلب کر رہے ہیں

تاکہ ’’مسافروں کا تحفظ کیسےکیا جائے

اس سلسلے میں انہیں جوابی اقدامات اور مدد کے بارے میں آگاہ کیا جا ئے گا‘‘۔

ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے (جو پہلے ٹویٹر تھا) بیون نے کہا کہ

مہم کا مقصد ’’یقین دلانا اور حفاظت کرنا‘‘ تھا۔

بیڈ بگز(کھٹمل جنکی فطرت میں خون سے خوراک حاصل کرنا ہے)

پچاس کی دہائی تک روزمرہ کی زندگی سے بڑی حد تک غائب ہو چکے تھے

لیکن حالیہ دہائیوں میں کثرت آبادی کی کثافت اور زیادہ بڑے پیمانے پر نقل و حمل کی وجہ سے خون پینے والے کیڑوں نے دوبارہ جنم لیا ہے

آپ کو سمجھنا، ہوگا کہ حقیقت میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، ظاہر ہے کہ یہ خطرے کے عوامل ہیں

لیکن حقیقت میں، آپ بیڈ کیڑے کہیں بھی پکڑ سکتے ہیں اور انہیں گھرلاسکتے ہیں

گریگوئیر نے کہا کہ اس منصوبے کے باوجود، یہاں 3.6 ملین لوگ ہیں جو روزانہ پیرس آتے ہیں، لیکن بیڈ کیڑے شہر کے مضافات میں نہیں رکتے ہیں

تین سال پہلے، فرانسیسی حکومت نے ایک اینٹی بیڈ بگ مہم شروع کی تھی

جس میں ایک مخصوص ویب سائٹ اور ایک معلوماتی ہاٹ لائن شامل ہے، کے ذریعے بتاگیا کہ

بیڈ بگ کیڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

عام طور پر اکثر یاد دہانی کی ضرورت کے سلسلے میں پیسٹ کنٹرول آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے کئی سو یورو (ڈالر) لاگت آتی ہے

خیال کیا جاتا ہے کہ تمام فرانسیسی گھرانوں میں سے ایک دسواں کو

پچھلے کچھ سالوں سے بیڈ بگ کا مسئلہ درپیش ہے

جمعرات کے روز پیرس سٹی ہال نے صدر ایمانوئل میکرون کی حکومت پر زور دیا کہ

وہ ایک ٹاسک فورس تشکیل دے کر اس انفیکشن کو کنڑول کرنے میں مدد کرے

بیڈ بگز کا نام گدوں میں گھونسلے بنانے کی عادت سے پڑا ہے

حالانکہ وہ کپڑوں اور سامان میں بھی چھپ سکتے ہیں

وہ رات کو انسانی خون پینے کے لیے باہر نکلتے ہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب کسی گھر میں کھٹمل نظر آتے ہیں

تو متاثرہ کمروں کا فوری علاج کیا جانا چاہیے

بیڈ کیڑے کے کاٹنے سے جلد پر سرخ نشانات، چھالے یا بڑے دھبے نکل جاتے ہیں

اور شدید خارش یا الرجک رد عمل کا سبب بن سکتے ہیں۔

بیڈ بگز اکثر نفسیاتی پریشانی، نیند کے مسائل، بے چینی اور ڈپریشن کا باعث بھی بنتے ہیں۔

فرانس کی قومی صحت کی ایجنسی اور سینیٹری باڈی کے ایک ماہر، اینسس نے کہا کہ یہ مسئلہ ’’فرانس اور دنیا میں تقریباً ہر جگہ پر ایک ابھرتا ہوا رجحان ہے‘‘۔

فرانسیسی قومی صحت کی ایجنسی نے گزازش کی ہے کہ لوگ سفر کرتے وقت اپنے ہوٹل کے بسترو کو چیک کریں اور اپنے گھروں میں سیکنڈ ہینڈ فرنیچر یازیادہ مہنگی قیمت والے گدے خریدنے سے پہلے محتاط رہیں

فرانسیسی حکام کے مطابق، حشرات کی ظاہری شکل، جو تقریباً 7 ملی میٹر لمبے ہو سکتے ہیں، کا حفظان صحت کی سطح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈپارٹمنٹ آف رسک اسیسمنٹ سے تعلق رکھنے والی آنسس جوہانا فٹ نے سی این این کو بتایا ’’ہم بیڈ بگ کی زیادہ سے زیادہ آبادی کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو مزاحم ہیں، اس لیے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی معجزاتی علاج نہیں ہے‘‘۔

واضح رہے کہ یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پیرس 2024 کے اولمپکس گیمز کی میزبانی کے لیے تیار ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے پریشان نہیں ہیں۔

گریگوئیر نے کہا کہ اولمپک گیمز کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ’’بیڈ بگ پہلے بھی موجود تھے اور وہ بعد میں بھی موجود رہیں گے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’گیمز‘ہر ایک کے لیے بیڈبگز کے وبائی مسئلے پر مل کر کام کرنے کا ایک ’’موقع‘‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

کراچی میں لرزہ خیز قتل کی اصل حقیقت

کراچی تا گوادر: سمندری راستوں پر فیری سروس کا انعقاد

اب آپ کو اپنی اس رپورٹ میں ہم یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں

آج سے ڈیڑھ سو سال قبل جب انگریز یہاں قابض تھے تو

شہر میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر تھے

جس کی وجہ سے کولاچی میں ’طاعون‘ کی وبا پھیل گئی تھی جسے بڑی سمجھداری کے ساتھ

شہریوں کے تعاون سے کنٹرول کیا گیا تھا

واضح رہے کہ شہر کراچی اپنے ابتدا ئی دور میں

کم حدود اور کثرت آبادی کی بنا پر سیلن زدہ شہر تصور کیاجاتا تھا

پورٹ سٹی میں پچاس کے عشرے میں آبادی تین لاکھ سے بڑھ کر تیرہ لاکھ ہوئی تب بھی

شہر کراچی کو صفائی ستھرائی کے فقدان کے باعث

فرانس میں کھٹمل کی وبا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا

اس عشرے میں شہر کراچی میں حشرات الارض کی بہتات تھی مختلف امراض جن میں چیچک، تپ دق، خسرہ اور طاعون عام تھے

نمائش پر ختم ہوئے والے شہر کراچی میں چوہے، کھٹمکل،لال بیگ اور دیگر حشرات الارض نے

شہریوں کاجینا حرام کر رکھا تھا۔

شہر سے چوہے ختم کرنے کے لئےکراچی میونسپل کارپوریشن نے چوہا مار مہم کا اعلان کیا

’’جو شخص بھی چوہا مار کر لائے گا اسے دس روپے انعام دیا جائے گا،‘‘ چنانچہ شہری اپنے گھروں کے چوہے مارکر لاتے اور کے ایم سی سے دس روپے بطور انعام لے جاتے۔

شہر کو گندگی اور بیماریوں سے پاک و محفوظ رکھنے کے لئے سڑکیں ’بلا ناغہ‘ دھوئی جاتی تھیں

ساٹھ کے عشرے میں، کے ایم سی نے ایک اور آرڈر پاس کیا تھا

شہرکے باسی، جانور گاڑی میں اپنے جانوروں( اونٹ، گدھے، گھوڑوں) کے پچھواڑے پر تھیلا باندھیں تاکہ جانوروں کا فضلہ، سڑک پر نہ گرے اور شہر کو گندا ہونے سے بچایا جائے۔

یوں مائی کولاچی سے کراچی بننے تک شہر سے بیماریوں اور وبائی امراض پر قابو پانے کا موئثر نظام، مختلف صورتوں میں عمل میں آتا رہا۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×