پاکستان سے نقل مکانی کے منتظر افغان مہاجرین میں برطانوی فوج کے سابق مترجم اور برٹش کونسل کے اساتذہ بھی شامل ہیں
پاکستان سے افغان مہاجرین کو برطانیہ لانے والا پہلا طیارہ آج پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6بجے لینڈ کر گیا ہے۔ ملک کے سرکاری ذرائع نے بین الاقوامی نشر یاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ پرواز 132 افراد کے ساتھ پاکستان سے روانہ ہوئی تھی
افغانستان میں برطانیہ کی حکومت کے ساتھ یا اس کے لیے کام کرنے کے بعد طالبان سے فرار ہونے والے ہزاروں افراد پاکستان میں نقل مکانی کے منتظر ہیں۔ ان میں برطانوی فوج کے سابق مترجم اور برٹش کونسل کے اساتذہ بھی شامل ہیں
سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا کہ برطانیہ کی حکومت نے اب سے دسمبر کے آخر تک افغانیوں کو برطانیہ لانے کے لیے کل 12 پروازیں چارٹر کی تھیں۔ تمام پناہ گزین یا تو افغان شہریوں کی آباد کاری کی اسکیم یا افغان نقل مکانی اور امدادی پالیسی کا حصہ ہیں۔
انہیں ویزا پروسیسنگ کے لیے پاکستان جانے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ کچھ وہاں ایک سال سے زیادہ عرصے سے انتظار کر رہے ہیں، اور یہ کہ ان کے بہت سے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔
ماہ اکتوبر کے شروع میں، پاکستان نے کہا تھا کہ اس نے یکم نومبر سے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد، طالبان نے ان لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جنہوں نے بین الاقوامی افواج کے ساتھ کام کیا، لیکن بہت سے افغانوں نے بیان کیا ہے کہ وہ اب بھی انتقامی کارروائیوں کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی طرف سے افغانستان چھوڑنے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وہ پریشان ہیں کہ انہوں نے خود کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’قاسم‘ایک فرضی نام، ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے برطانیہ کے حکام کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے ہماری جانیں 50 فیصد خطرے میں تھیں۔ اب وہ 100 فیصد خطرے میں ہیں
عدالت میں سامنے آنے والی رسک اسسمنٹ دستاویز کے مطابق، پاکستان میں برطانوی حکام اب پاکستان میں برطانیہ کے ویزوں کے منتظر افراد کو ’’ملک بدری کے خطرے میں‘‘ سمجھتے ہیں۔
: یہ بھی پڑھیں
افغانیوں کی وطن واپسی کا مسئلہ
غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہری پاکستان سے ملک بدر
افغانستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں تصور سے بھی زیادہ بدتر
بی بی سی کے مطابق، حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس گروپ کے تقریباً 3,250 مرد، خواتین اور بچے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں میں رہ رہے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے انہیں کام کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے اور ان کے بچے اسکول جانے کے قابل نہیں ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جب وہ پہلی بار پاکستان گئے تھے، وہ وہاں صرف چند ہفتے انتظار کریں گےلیکن عدالت میں جاری ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو طویل انتظار کا سامنا کرنا پڑا تھا
کیونکہ وزیر اعظم رشی سنک نے کہا تھا کہ، انتہائی صورتوں کے علاوہ، انہیں برطانیہ نہیں لایا جا سکتا اور ہوٹلوں میں رہائش نہیں دی جا سکتی۔ اس کے بجائے، ان کی منتقلی سے پہلے طویل مدتی رہائش تلاش کرنی پڑی
واضح رہے کہ پاکستان سے جمعرات26اکتوبر کو پہلی فلائٹ روانہ ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان سے ڈھائی سے تین ہزار افغان مہاجرین 12 پروازوں کے ذریعے برطانیہ منتقل کیے جائیں گے۔ خصوصی فلائٹس دسمبر کے وسط یا اختتام تک آپریٹ ہوں گی۔ پروازوں کی روانگی کے موقع پر پاکستانی ایف آئی اے،کسٹمز،ائیرپورٹ سکیورٹی اور سول ایوی ایشن حکام موجود ہوں گے۔