پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چند ماہ
سےانفلوئنزا وائرس کے پھیلاؤ میں شدت آنے کے بعدمحکمہ
صحت سندھ نے ایڈوائزری جاری کردی ہے
کراچی: (انفلوئنزا ) یعنی فلو ایک خطرناک سانس کا انفیکشن ہے جو آسانی سے دوسروں تک پھیل جاتا ہے
انفلوئنزا وائرس سے متاثرہ شخص کو نزلہ، زکام، گلے میں خارش، سر میں درد، جسم میں درد، سوزش، خارش اور بخار کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
انفلوئنزا(فلو وائرس) دل کی بیماری، دمہ اور ذیابیطس جیسے موجودہ صحت سے متعلق عوارض کی مزید خرابی کا با عث بن سکتا ہے۔
کراچی شہر میں انفلوئنزا وائرس سے بچاؤ کے لئےمحکمہ صحت سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری میں متاثرہ مریضوں کو گھر تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے، ساتھ ہی فوری طور پر معالج سے رجوع کرنے اور گھر کو ہوادار رکھنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ وائرس سے متاثرہ افراد فیس ماسک کا استعمال کریں۔ چھینکنے کے دوران ناک پر ٹشو یا صاف کپڑے کا استعمال کریں۔ جب تک وائرس کی علامات ختم نہ ہوجائیں تب تک سفر کرنے سے گریز کریں۔
محکمہ صحت سندھ کی ایڈوائزری میں کم عمر افرا اوربزرگوں کو انفلوئنزا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بر وقت لگوانے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق چند ماہ قبل شہر میں انفلوئنزا سے متاثر مریض کی کثیر تعداد دیکھنے میں آئی تھی لیکن پھر انفلوئنزا کی شدت میں کمی آگئی تھی لیکن اب ایک بار پھر وائرس تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔
ڈاکٹرز علامات کے سامنے آنے کے تحت مریض کا علاج کر رہے ہیں، جن سے بظاہر کچھ ہی دن میں مریض صحت یاب ہو رہے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہائی کم کیسز میں متاثرہ افراد نمونیا کا شکار بھی بن سکتے ہیں۔
ماہرین نے تجویز دی کہ انفلوئنزا کی علامات کے فوری بعد ڈاکٹرز سے رجوع کرکے ان کی دی گئی ہدایات پر عمل کرنا چاہئیے اور اگر جلد صحت میں بہتری نہ ہو تو دوبارہ جاکر ٹیسٹس بھی کروانے چاہئیے۔
یہ بھی پڑ ھیں
ایک پر اسرار بیماریNipah Virus
Monkey Pox Virus
ماہرین صحت کے مطابق، کراچی میں وائرسز پھیلنے کی وجوہات میں انسانی طرز زندگی، بدلتے موسم اور ٖفضائی آلودگی کے علاوہ کئی اور عوامل بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رات دیر گئے تک جاگتے رہنا، پوری رات موبائل فون استعمال کرنا، فاسٹ فوڈ کا استعمال کرنا، ورزش سے دور رہنا وائرس سے متاثر ہونے کا سبب ہوسکتے ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ شہر کراچی میں وائرسز کی کھوج لگانے والی لیبارٹریز موجودد نہیں ہیں جسکی بنا پر بر وقت وائرسز کی تشخیص ممکن نہیں ہو پاتی۔
بہر کیف احتیاط، علاج اورموت سے بہتر ہے۔