November 7, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
پاکستان اور چین کی دوستی کو چینی زبان نے کیسے مزید مضبوط کیا؟
پاکستان اور چین کی دوستی

پاکستان اور چین کی دوستی کو چینی زبان نے کیسے مزید مضبوط کیا؟

پاکستان اور چین کی دوستی کو چینی زبان نے نئی جہت دی، پاکستانی طالبعلم

نعیم اور یان لی کی کہانی ثقافتی تعلقات کی خوبصورت مثال ہے۔

ویب نیوز : ڈیسک رپورٹ

“میرا دوست میرے ساتھ ہو تو مشکل وقت بھی ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جاتے ہیں”

ارمچی/اسلام آباد (شِنہوا) : چینی اُستاد یان لی نے یہ آواز سنی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کیونکہ یہی وہ نغمہ “دوست” تھا جو انہوں نے نعیم کو پڑھایا تھا۔

“میرا دوست میرے ساتھ ہوتو مشکل وقت بھی ہمیشہ کے لئےرخصت ہو جاتے ہیں ۔” یہ آواز چینی زبان کے پاکستانی اُستاد نعیم خان کی تھی جو کمپیوٹر اسپیکر سے ابھرکرسنکیانگ نارمل یونیورسٹی کے کیمپس میں یان لی کے دفتر میں ایک بار پھر گونج اُٹھا ۔

یہ سن کر یان لی کی آنکھوں میں آنسو آگئےکیونکہ یہ وہی نغمہ “دوست” تھا جو انہوں نے اپنے تدریسی سفر کے آغاز میں نعیم کو کلاس میں سکھایا تھا ۔

پاکستان اور چین کی دوستی — سرحد پار دو نسلوں پر محیط رشتہ

اس مقبول چینی نغمے کی دھن نے آہستگی سے وہ یاد تازہ کر دی جو سرحد پار دو نسلوں پر محیط رشتہ پاکستان اور چین کی دوستی ہے ۔ اس دوستی کی جڑیں پندرہ برس پرانی ہیں ۔

سال 2010 میں پاکستانی طالب علم نعیم چینی زبان سیکھنے کے لئے سنکیانگ نارمل یونیورسٹی پہنچا ۔ اسے اچھی طرح یاد ہے “یہ پہلا موقع تھا کہ میں چین آیا۔ میں نے یہاں آنے سے پہلے کبھی چینی زبان نہیں سیکھی تھی ۔” اجنبی ماحول میں وہ کچھ تذبذب کا شکار اور محتاط دکھائی دیا ۔

اس کے باوجود اس کی اُستاد یان لی نے اسے ایک شوقین اور محنتی شاگرد کے طور پر پہچان لیا تھا ۔ ان کے بقول “وہ ہرن کے کسی گمشدہ بچے کی طرح بے اطمینانی اورالجھن کا شکار ضرور تھا مگر نہایت سرگرم رہتا ۔

وہ ہمیشہ کلاس کی پہلی رَو میں بیٹھتا تھا ۔” یان لی اس وقت بین الاقوامی ثقافتی تبادلے کے کالج میں غیرملکی طلبہ کے شعبے کی سربراہ ہیں لیکن کئی برس گزر جانے کے بعد بھی وہ اس لڑکے کو آج بھی یاد رکھتی ہیں جو انہیں ہمیشہ “ماں” کہہ کر پکارتا تھا ۔

اُستاد اور شاگرد — محبت، تربیت اور ثقافت کا سفر

یان لی کو فکر رہتی تھی کہ غیرملکی طلبہ شاید مقامی کھانوں کے عادی نہ ہوں یا انہیں مناسب غذائیت نہ مل رہی ہو۔ اسی لئے وہ صبح کی مطالعے کی کلاس سے پہلے کمرۂ جماعت میں ان کے لئے دودھ ابال کر لایا کرتی تھیں ۔

ان کے زیرِ تربیت طلبہ کے ذہنوں میں برسوں بعد آج بھی اس دودھ کی گرم خوشبو ایک نمایاں اور روشن یاد کے طور پر موجود ہے ۔

یہی جذبہ اُن کے شاگردوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے، جو پاکستان چین دوستی کی ایک روشن مثال بن چکا ہے۔

ثقافتی دورے اور دوستی کی بنیاد

استاد کی لگن صرف کمرہ جماعت کی دیواروں تک محدود نہیں تھی ۔ یان لی طلبہ کو فیکٹریوں اور تفریحی مقامات کے دوروں پر لے جایا کرتی تھیں ۔ ان دوروں نے طلبہ کو نہ صرف چین کی ثقافت سے قریبی شناسائی فراہم کی بلکہ انہیں یہ موقع بھی دیا کہ وہ اپنی آنکھوں سے چین کی ترقی دیکھ سکیں ۔

ایک سال چنگ مِنگ فیسٹیول کے موقع پرجب یان لی اپنے غیرملکی طلبہ کو سنکیانگ کے اس قبرستان لے گئی جہاں جانیں قربان کرنے والے چینی ہیروز دفن ہیں ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب نعیم کو اچانک اپنے وطن سے گہرے تعلق کا احساس ہوا ۔

پاکستانی طالبعلم کو گلگت میں واقع چینی ہیروز کا قبرستان بھی یاد آگیا جہاں ان 88 چینی انجینئرز اور مزدور وں کی قبریں ہیں جو قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔

اس نے یان لی کو بتایا کہ “ہم اپنے وطن میں بھی اس قبرستان پر حاضری دیتے ہیں ۔‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ” اخلاص پر مبنی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی، یہ نسل در نسل آگے بڑھتی رہتی ہے ۔” یہی جذبہ پاکستان اور چین کی دوستی کو نئی بلندیوں تک لے گیا ۔

چین پاکستان دوستی ہائی وے — قربانیوں سے جڑا رشتہ

یہ شاہراہ دونوں ممالک کی دوستی اور قربانی کی علامت ہے ۔ یہ اہم شاہراہ خونِ جگر اورانتھک محنت سے تعمیر ہوئی تھی ۔ اسے پیار سے “چین پاکستان دوستی ہائی وے” کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد گزرنے والی دہائیوں میں یہ شاہراہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے چین جانے کا باعث بنی جس نے سرحد پار گہری دوستیوں کو جڑیں پکڑنے اور پروان چڑھنے کا موقع دیا ۔ ان پاکستانیوں میں نعیم جیسے طلبہ بھی شامل ہیں جنہیں یہاں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ ملا۔

نعیم کو اب بھی یاد ہے “ہمارے لئےوہ صرف ٹیچر یان لی نہیں تھیں بلکہ ‘ماں’ تھیں،” یادوں کو دہراتے ہوئے اس کے لہجے میں پیار اور گرمجوشی اتر آئی۔ وہ گویا ہوا “ہم اپنی چینی ماں کو دل و جان سے چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہماری دیکھ بھال کی۔ وہ ہماری ہچکچاہٹ بھری ہر بات کو سمجھ لیتی تھیں حتیٰ کہ اُس وقت بھی جب ہم خود ابھی زبان کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے تھے ۔”

تعلیم سے تعلق تک — نعیم خان کا نیا سفر

گریجویشن کے بعد نعیم اپنے آبائی شہر راولپنڈی لوٹ آیا۔ وہ اپنے ساتھ صرف ڈگری ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ لے کر آیا تھا۔ وہ چینی زبان کا اُستاد بن گیا تھا ۔ اس نے چینی زبان کے استاد کے طور پراپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔ اس کا مقصد تھا کہ یہ خاص رشتہ جس کا وہ خود تجربہ کر چکا تھا نئی نسل میں منتقل ہوجائے ۔

بالآخرسال 2024 میں یہ تعلق اس وقت ایک نئے موڑ پر پہنچا جب احمد بلال نے سنکیانگ نارمل یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ کے طور پر داخلہ لیا ۔ احمد بلال وہ پاکستانی طالبعلم تھا جس نے نعیم سے چینی زبان سیکھی ۔

ایک ملاقات کے دوران احمد بلال نے یان لی کو ایک دہائی پرانی ایک تصویر دکھائی جس میں نوجوان نعیم اُن کے ساتھ کھڑا تھا۔ اپنے اُس پہلے شاگرد کو دیکھ کر جو اب خود ایک استاد بن چکا تھا یان لی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔

پاکستان اور چین کی دوستی

یہ بھی پڑھیں

چینی سرمایہ کار سندھ میں کن منصوبوں میں سرمایہ لگائیں گے؟

کھجور: خیرپور کی مٹھاس، محنت اور معیشت کی پہچان

طارق عزیز: نیلام گھر سے سیاست تک ایک تاریخی سفر

نئی نسل اور چینی زبان — مواقع کی نئی دنیا

احمد بلال کے مطابق”، چینی زبان سیکھنے سے ہمارے لیے نئے دروازے کھلے ہیں ۔”

پاکستانی طلبہ کے لیے اب تعلیم، تجارت اور روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔

یہی وہ مستقبل ہے جس میں پاکستان اور چین کی دوستی مزید مضبوط ہوگی ۔

نتیجہ — زبان سے بڑھ کر دلوں کا رشتہ

حالیہ برسوں میں چینی زبان پرعبورنے پاکستانی نوجوانوں کے لئے نئی راہیں کھول دی ہیں ۔ چینی زبان اور ثقافتی تبادلے نے پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم کیا ہے ۔ جبکہ چین پاکستان تعاون نے دونوں ملکوں کے عوام کو عملی فوائد پہنچائے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ یہ رشتہ اب صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ نسل در نسل دلوں میں اتر چکا ہے ۔

احمد بلال نے کہا ” چینی زبان سیکھنے کے نتیجے میں ہمارے لئے زیادہ مواقع پیدا ہوئے ہیں،میں نے استاد نعیم کی نصیحت پر عمل کیا اور چین چلا آیا ۔”

احمد بلال بھی اپنے مستقبل کو مواقع سے بھرپور اسی منظرنامے میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا “شاید میں بھی اپنے بھائی کی طرح تجارت کے شعبے میں کام کروں۔” ان کا مزید کہنا تھا ” میں واقعی پُرامید ہوں کہ ہم اپنے مشترکہ مستقبل میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔”

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×