November 17, 2025
47, 3rd floor, Handicraft Building , Main Abdullah Haroon Road, Saddar Karachi, Pakistan.
بازارِ حسن کیا صرف گناہ کی گلی تھی یا تہذیب کا ایک چہرہ؟
بازارِ حسن

بازارِ حسن کیا صرف گناہ کی گلی تھی یا تہذیب کا ایک چہرہ؟

کراچی کے نیپئر روڈ کے بازارِ حسن کی سماجی، ادبی اور تاریخی پرتیں اور بدنام گلی

یہ ادب، عشق اور تہذیبی رشتوں کی ایک پیچیدہ کہانی ہے۔

(تحریر: محمود احمد لئیق (کالم نگار

بازارحسن کی کہانی __ قسط اوۤل

یہ پرانے وقتوں کے بازارحسن کی گلیوں کا ذکرہے ۔ کراچی کا علاقہ نیپئرروڈ کسی زمانے میں بازارحسن کہلاتا تھا ۔ پھرغلام عبّاس کے افسانے آنندی کی تحریک کاشکار ہوگیا ۔ اس افسانے میں مکین ایک نئے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے اور وہاں بھی بقول مجروح ع لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا ۔

اب اسے آپ کارواں کا نام دیں یا قافلہ یا ہجوم قراردیں، آپ کی صوابدید پرہے ۔ ویسے پیرزادہ قاسم کافرمان ہے ع ہجوم سے تو کارواں بناہی نہیں ۔ پھر یہاں کی صورتحال جدا ہے۔ آنندی میں علاقہ بدلا گیا تھا ۔ لوگ اس سے واقف تھے ۔

کسی شاعر کا کہنا ہے ع کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد لگتا ہے کہ شاعرنے اہلِ نظر اسی مخلوق کوکہا ہے جویہاں سے نقل مکانی کر چکے تھے ۔ لیکن یہاں کراچی میں لگتاہے کہ وہ معززاراکین شہرکے گوشے گوشے میں پھیل گئے ہیں ۔

اس سے ’شائقین ادب‘ کو ان کا اتا پتا تلاش کرنے میں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی ۔ لیکن وہ جوکہتے ہیں ’ڈھونڈنے سے خدابھی مل جاتاہے‘ تو اسی کے مصداق منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں ۔

راستے بند نہیں کئے گئے بلکہ بدل گئے تھے ۔ راستے بند کرنے پروہی ہوتاجوقمرجلالوی کہہ گئے ہیں ۔ راستے بند کیے دیتے ہو، دیوانوں کے ڈھیرلگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے مجرے کے دوران نوٹ نچھاورکرنے کو ’ویل‘کہتے ہیں ۔

قوالی میں توبرسوں بلکہ شایداس کی ابتداسے رائج ہے ۔ بد قسمتی سے اب نعت خوانی میں رواج پاگئی ہے اورکیوں نہ ہو، آخر یہ بھی ایک پیشہ ہے ۔ہزروں اورلاکھوں روپے نعت خوان معاوضہ لیتا ہے ۔ اس پر یہ ویل الگ ہے ۔

مجرے کا لطف اٹھانے کے لیے شاعری، موسیقی یا رقص کے داؤپیچ سے آگاہی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بڑی تعداد میں اس کے دیوانے وہ لوگ ہیں جو ان تینوں علوم یانکات سے بے خبر ہیں ۔

ان کا کہنا ہے ع بس اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے ہمارے ایک دوست جوتینوں علوم سے بے بہرہ تھے پھربھی ویلیں لٹانے میں بڑے پیش پیش تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے عزّت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم نے سوچاانہیں عزّت کی بہت ضرورت ہے ۔

اس ادارے کے تین اہم کردار ہوتے ہیں،ویسے تو چنداوربھی شامل کیے جاسکتے ہیں جیسے سازندے وغیرہ ۔ ان تین میں ایک تووہ فنکارہ ہے جو رقص ونغمہ پیش کرتی ہے دوسری نائکہ کہلاتی ہے جس پرفصلِ بہار گزرچکی ہوتی ہے اور اب اپنے کنبے کو سنبھال کے اپنے رزق کا بندوبست کرتی ہے ۔

تمام معاملات جیسے کہ کمرے یا فلیٹ کا کرایہ اور دیگراخراجات پرجن میں مہمانوں کی تواضح شامل ہے ۔ تیسراکردار دلّال کاہے جس کے لیے منٹو کے افسانوں میں بڑے غلیظ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

رقص ونغمہ والی مخلوق میں اس کا کردار نہ کے برابر ہوتا ہے ۔ البتہ جسم بیچنے والیوں تک رہنمائی میں وہ بہت مستعد ہوتے ہیں ۔ نائکہ کی آنکھیں ایکسرے مشینوں سے زیادہ گہری ہوتی ہیں ۔

مہمانوں کے لیے پان بناتی ہے، منہ میں حقّہ لگائے وہ ماحول کا جائزہ لیتی ہے اس وقت اس کی زبان بڑی میٹھی ہوتی ہے لیکن جب معاملہ کامرحلہ کا آئے تو قاتل سے زیادہ بے رحمی، چورسے زیادہ پھرتی، ڈاکوسے زیادہ سنگ دلی اور خائن سے زیادہ کجی آجاتی ہے۔

وہ اپنے تکلیف دہ ماضی کاقرض اپنی اولاد (پیداکردہ یاگود لی ہوئی) سے چکاتی ہے ۔ سنگ دلی اور خائن سے زیادہ کجی آجاتی ہے ۔ وہ اپنے تکلیف دہ ماضی کاقرض اپنی اولاد (پیداکردہ یاگود لی ہوئی) سے چکاتی ہے ۔

جوش ملیح آبادی رقص کواعضا کی شاعری قراردے چکے ہیں، تواس شاعری سے نابلد انسان کون ہوگا ؟ اس لیے کہ دنیا کا ساراکھیل اعضا کا ہے ۔ مجرا اور اس کی کمین گاہ یعنی کوٹھا مشرق کی ایجاد ہے توپھرشاعرِمشرق اس سے کیوں محروم رہتے ۔

شورش کاشمیری نے عبدالمجید سالک پرتحریر کردہ خاکے میں بیان کیاہے ۔ کہانی مختصر الفاظ میں یوں ہے : ” مولانا گرامی لاہورتشریف لائے تومجھے (سالک صاحب) دفترسے اٹھاکر علّامہ اقبال کے ہاں لے گئے ۔

علّامہ ان دنوں بازارحکیماں میں رہتے تھے، بخش علی سے پتہ چلاکہ علّامہ بیمار ہیں، دھسّہ لے کربیٹھے ہوئے تھے۔ داڑھی بڑھی ہوئی، چہرا اتراہوا، آنکھیں دھنسی ہوئیں، گرامی دیکھتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ۔ پوچھا ! خیریت ہے ؟ معلوم ہواکہ امیر(علّامہ کی منظورنظرطوائف)کی ماں نے میل ملاقات بند کردی ۔

بتاتے ہیں کہ پچھلے تین روزسے ملاقات نہیں ہوئی ۔ گرامی ہنس پڑے اور پنجابی میں کہا : ” او چھڈ یارتوں وی غضب کرنا ایں، او تینوں اپنی ہنڈی کس طرح دے دین“۔(چھوڑویار،تم بھی غضب کرتے ہو،بھلاوہ تمہیں اپنی ہنڈی کس طرح دے دے) پھرگاڑی پر مجھے (سالک صاحب) کوساتھ لیااور اس بازار کوروانہ ہوگئے ۔

گرامی نے امیرکی ماں سے گلہ کیا کہ تونے ہمارے شاعرکوختم کرنے کی ٹھانی ہے ۔ اس نے کہا شاعروں کے پاس کیا ہے، چارقافیے اور دوردیفیں، کیامیں اپنی لڑکی ہاتھ سے دے کر فاقے سے مرجاؤں ؟

اس کے آگے کی کہانی یوں ہے کہ گرامی نے دوگھنٹے کی شخصی ضمانت دے کرامیر کو علّامہ سے ملوانے لائے ۔ علّامہ دیکھ کرنہال ہوگئے اورطبیعت بحال ہوگئی ۔ ایک اور سورماخواجہ حسن نظامی ہیں جو خود کو نظام المشائخ کہا کرتے تھے اور اور نظام الدین اولیا کے گدّی نشیں بنے بیٹھے تھے ۔

شورش نے ان کے متعلق ایک ہی جملہ بہت خوب لکھا ہے : ” حجرے میں مجرے کا جوازبھی پیدا کرلیتے تھے “۔ اس بازارحسن کے شہیدوں میں بڑے بڑے دانشور، شاعر، دنیاوی اور دینی علوم کے ماہر شامل ہیں ۔

اردوکے معروف ڈرامہ نگارآغا حشر کاشمیری جنہیں اردوکاشیکسپیئر کہاجاتاہے ان جہادیوں میں شامل تھے ۔ سعادت حسن منٹو اپنی خاکوں کی کتاب ’گنجے فرشتے‘میں آغا صاحب پرلکھے گئے خاکے میں ان کی وارفتگی کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں : ” آغاصاحب نے کبھی کسی عورت سے عشق نہیں کیا ۔

لیکن مجھے داروغہ اابراہیم کی زبانی معلوم ہواکہ یہ بات جھوٹ ہے ۔ کیونکہ وہ امرتسرکی مشہور طوائف مختارپرعاشق ہیں ۔ وہی مختارجس نے ”عورت کاپیار“ فلم میں ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے “۔

عمرکے آخری حصّہ میں ان کومختارسے عشق کیسے ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سخت تعجب ہواتھا۔۔۔۔۔ دینویا فضلوکمہار نے گردن ہلاکربڑے فلسفیانہ اندازمیں کہاتھا : ” بڑھاپے کاعشق بڑا قاتل ہوتا ہے “۔

داروغہ ابراہیم نے کہا ! کل رات ہم مختارکے کوٹھے پرتھے۔۔۔۔ آغاصاحب گاؤتکیئے کاسہارا لیے بیٹھے تھے ۔ ہم میں سے باری باری ہرایک نے ان سے پرزوردرخواست کی کہ وہ اپنے نئے فلمی ڈرامے : ” رستم وسہراب “کاکوئی قصّہ سنائییں تاہم انہوں نے انکار کردیا۔

ہم سب مایوس ہوگئے۔ ایک نے مختارکی طرف اشارہ کیا ۔ وہ آغ اصاحب کی بغل میں بیٹھ گئی اوران سے کہنے لگی : ” آغاصاحب ہماراحکم ہے کہ آپ رستم وسہراب سنائیں“!۔۔۔۔آغا صاحب مسکرائے اور بیٹھ کررستم کا پرزورمکالمہ اد اکرن اشروع کردیا ۔ بڑاقاتل ہوتاہے “۔ داروغہ ابراہیم نے کہا، کل رات ہم مختارکے کوٹھے پرتھے۔۔۔۔

اللہ اللہ کیا گرجدارآوازتھی ۔ معلوم ہوتا تھا کہ پانی ک اتیزدھارا پہاڑکے پتھروں کوبہائے لئے جارہاہے“۔ دیکھنے کی بات ہے کہ اتنے بڑے دھارے کارخ ایک قطرے (مختار بیگم) نے بدل دیا ۔

مصنّف (آغاصاحب) محبوب کے ایک حکم کاغلام ثابت ہوا ۔ منٹونے اس خاکے میں آغاصاحب کے چندڈراموں کاذکرکیاہے جن کاموضوع طوائف تھا ۔ جن میں آغاصاحب نے اس کے وجود کو سوسائٹی کے حق میں زہرثابت کیاتھا……….اورآغاصاحب عمرکے اس آخری حصّے میں شراب چھوڑکرایک طوائف سے پرجوش عشق فرمارہے تھے ۔

منٹو نے اپنی کیاب ’گنجے فرشتے‘میں چندکردار بے نقاب کیے ہیں ۔ ان کی تحریر بتاتی ہے : ”پکار فلم کی پری چہرہ نسیم بانو’(جوبعدمیں دلیپ کمار کی خوش دامن بنی) بھی ایک زمانے میں اخبارات کی سرخیوں میں رہی ۔

ان کے متعلق افواہ تھی کہ نظام حیدرآباد کے صاحبزادے معظم جاہ نسیم بانوپرڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے ۔ یہ خبردرست تھی کیونکہ شہزادے کا قیام اکثربمبئی میں ہوتاتھا اور وہ کئی بارنسیم کے مکان واقع میرن ڈرائیوپردیکھے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ پیسے کے زورسے نسیم کی والدہ شمشادعرف چھمیاں کودضامند کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ چنانچہ پری چہرہ کاالتفات خرید کرآپ اسے اس کی والدہ سمیت حیدرآبادلے گئے“۔ بعد میں نسیم کوحیدرآباد سے چھٹکارہ کیسے ملا، یہ ایک الگ کہانی ہے اور ہمارے موضوع سے الگ ہے ۔

اسی مخلوق کے ایک اور شکار مشہورشاعراحسان دانش تھے ۔ اپنی سوانح : ” جہانِ دانش“میں اپنی محبوبہ شمعی کا ذکرکئی صفحات پرمشتمل ہے ۔ بار بار اس کے التفات کا ذکر اس سوانح میں موجودہے :ابھی میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ شمعی (طوائف کانام) نے زبان کھلنے سے پہلے ہی ہاتھ میں ہاتھ لے لیا۔۔۔۔۔۔۔

وہ غم کی دولت سے اس قدرلبریز تھی کہ میں نے اس کے ہاتھ کی پشت اپنے گال سے ملادی تواس کی ہچکی بندھ گئی ۔ ایسے کئی مقامات ان کی سوانح میں آتے ہیں : ” وہ سرجھکائے پھولوں سے لدی چنبیلی کی طرح میرے بازوؤں کے نیم دائرے میں آگئی“۔

چنداوراختلاط کا منظراس کتاب سے پیش خدمت ہے : ” یہ کہتے کہتے وہ یکدم خاموش سی ہوگئی اور دیر تک میراہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے کانپتی رہی “۔ اس سے بڑھ کر ایک اقتباس دیکھئے : ” میں نے خود کو سنبھالااورکمرکے پیچھے سے ہاتھ بڑھاکراس کاشانہ پکڑلیا اور اس نے میرے بازوپرگردن ڈا ل دی جیسے ایک زردشیرازی کبوترہاتھ میں مر جائے “۔

ایک مختلف حال دیکھیں : ” ایک دن ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دالان میں ٹہل رہے تھے “۔ اب احسان دانش صاحب رقص کاتاثّرلکھتے ہیں : ” شمعی سے نزدیک ہوکر مجھ پریہ انکشاف بھی ہواکہ رقص ونغنہ سے صرف دل ہی گدازنہیں ہوجاتا ۔

اس سے ہاتھ پاؤں میں بھی لوچ آجاتاہے ، طبلہ کی تال پرہاتھ پاؤں میں خودبخودحرکت جاگنے لگتی ہے۔ اس میں انسانی ارادے کادخل نہیں ہوتا “۔ ایسا لگتا ہے کہ مصنّف جنّت کی سیر کررہاتھا : ” قسم اٹھانے سے پہلے اس نے میرے دائیں ہاتھ کی پشت پراپنے ہونٹ ثبت کردیئے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیرتک دونوں چہروں میں کوئی فاصلہ نہ تھا “۔ ابھی ایسے کئی سین باقی ہیں : ”مجھے وہ اپنے کمرے میں لے گئی اور میری گردن میں حمائل کردیں، میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ بازوؤں تک گلاب کی پتّیوں میں ڈوب گئے“۔

اس جسمانی اختلاط سے ہٹ کر شمعی نے سونے کے کنگنوں کی ایک جوڑی اپنے عاشق(احسان دانش) کی طرف بڑھائیں۔ عاشق نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کنگنوں کی جوڑی قبول کرنے سے معذرت پرشمعی نے ڈبڈبائی آنکھوں سے صرف اتناکہا

طوائف بڑی ہی ذلیل ہوتی ہی۔ بہت ہی بے غیرت قوم ہے


احسان دانش صاحب کا سامنا ایک اور طوائف سے بمبئی میں ہوا۔لیکن اس کے ساتھ رنگین لمحات نہیں گزرے جوشمعی کی صحبت میں راس آئے۔وہ شخصیت جدن بائی تھی ۔(آج کے مقبول ہیروسنجے دت کی نانی اور ماضی کی نامور ہیروئن نرگس کی ماں)ان کا کہنا ہے وہ طوائف ہی سہی، ایسی دلآویزاورمعاملہ فہم عورت تھی جو اس میدان میں نظرنہیں آئی ۔

یہ بھی پڑھیں

کیا عبیداللہ بیگ واقعی پاکستان کے سب سے بڑے دانشور اور خوش گفتار شخصیت تھے؟

مشہور شاعر احسان دانش نے اپنی سوانح:”جہانِ دانش“میں اس کا ذکر بہت خوبصورت الفاظ میں کیاہے ۔ اس کی سوچ اور لگن کوخراج تحسین پیش کیاہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں : ”دوسرے دن بمبئی کی مشہور آرٹسٹ جدّن بائی نے شعرا کواپنے بنگلے پرمدعوکیا ۔

جدّن میرے کلام سے متاثرتھی، میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے میری نظموں میں سے اپنی پسندکے سینکڑوں ٹکڑے سناڈالے۔۔۔۔۔ اسے صرف میرے ہی نہیں اس دور کے مشہورشعراکے ہزاروں اشعار ازبر تھے۔۔۔۔۔۔

جہاں وہ فلمی دنیامیں اپنی مثال آپ تھی، وہیں وہ دوستوں کے لیے بہترین مشیرزندگی بھی تھی،وہ دنیا اوراس کے نشیب و فرازکواچھی طرح سمجھتی تھی اور معاملے کی سخت سے سخت گتھی کوسلجھانے کی صلاحیت اس میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔

اپنا تبصرہ لکھیں

آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا

×